ہندی زبان کے لفظ ’سوادیس (Swades) تلفظ سوادیش‘ کا مفہوم ’آبائی سرزمین ہے لیکن اِس لفظ کا صرف ایک ہی مطلب نہیں اور یہی وجہ تھی کہ دسمبر 2004ءمیں معروف فلم پروڈیوسر اشوتش گواریکر نے ’ڈارمہ و موسیقی‘ کی درجہ بندی میں ’ساڑھے تین گھنٹے‘ دورانئے کی ’سوادیس‘ نامی فلم نمائش کے لئے پیش کی‘ جس کا بنیادی پیغام یہ تھا کہ سماجی ترقی کے لئے حکومت پر انحصار یا حکومت کی راہ دیکھنے کی بجائے ’اپنی مدد آپ کے تحت‘ مقامی وسائل سے بھی مقامی مسائل کا حل ممکن ہے اِس لئے گردوپیش پر نظر کرتے ہوئے مسائل کے حل بارے سوچا جائے اور عملی طور پر جدوجہد کی جائے۔ 21 کروڑ روپے (چالیس کروڑ سے زیادہ پاکستانی روپے) کی لاگت سے تیار ہونے والی اِس فلم نے 34 کروڑ روپے (70 کروڑ پاکستانی روپے) سے زیادہ کمائے۔ اگر یہ فلم بھارت میں کاروباری طور پر زیادہ کامیاب و مقبول ثابت نہ ہوئی اور اِسے دستاویزی فلموں کی عالمی درجہ بندی میں بھی ’ناکام (flop)‘ قرار دیا گیا اور نہ ہی پیغام وہاں تک پہنچ پایا جہاں تک اِسے پہنچانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن ہندی فلمی صنعت کو اِس بارے سنجیدگی سے سوچنے کی دعوت ضرور ملی کہ سماجی ترقی کے پیغام کو گھر گھر پہنچانے کے لئے اُس ’صوتی و بصری ذریعے (فلم)‘ کا سہارا بھی لیا جا سکتا ہے جو تفریح کی حد تک محدود دکھائی دیتا ہے اور تفریح برائے تفریح کے لئے مخصوص سوادیس کی کہانی فرضی نہیں تھی بلکہ یہ 14برس کے دوران رونما ہونے والے واقعات کا نچوڑ تھا۔ فلم کا بنیادی خیال 2 حقیقی کرداروں (اُرویندا پلالاماڑی اور روی کوچی منچی) کی عملی کوششوں سے ماخوذ ہے جو بیرون ملک طویل قیام کے دوران اپنے علم‘ تجربے اور سرمائے کے استعمال سے ’اپنی مدد آپ‘ جیسے سماجی ترقی کے نظریئے پر عمل کرتے ہیں۔ فلم کا مرکزی کردار امریکہ میں خلائی تحقیق کے مرکز ’نیشنل ایروناٹیکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن ‘ سے وابستہ ہوتا ہے اور اپنے آبائی گاو¿ں کی چند روزہ سیر کے دوران وہاں ’پن بجلی گھر‘ بناتا ہے۔ کہانی کو دلچسپ بنانے کے لئے ہندو مذہب کے دیوی دیوتاو¿ں کے قصے کہانیوں کو بھی شامل کیا گیا جس کا مقصد ’اجتماعیت کا درس دیتے ہوئے اچھے کاموں کی طاقت‘ کو اُجاگر کرنا ہو سکتا ہے۔ فلم سازی کے علوم کی روشنی میں تکنیکی لحاظ سے کئی خامیاں فلم کا حصہ تھیں جنہیں دور کرنے پر زیادہ توجہ شاید اِس لئے نہیں دی گئیاور نہ ہی معروف فلمی ستاروں کا ہجوم اکٹھا کیا گیا بلکہ ایک سیدھی سادی کہانی کو سیدھے سادے انداز میں پیش کرنا مقصد تھا کہ 1: اجتماعیت (اتحاد و اتفاق) بہرصورت ضروری ہے اور 2: سماجی حالات تبدیل کرنے کے لئے حکومت کی محتاجی سے نہیں بلکہ حالات فیصلہ سازی کو اپنے ہاتھ میں لینے سے ممکن ہے۔فلم کی تخیلات سے عملیت پر مبنی مثالوں تک ’محوِ پرواز اِنسانی سوچ اور عقل‘ کا ارتقا ء(سفر) جاری ہے‘ جس سے رہنمائی حاصل کرنے میں حرج نہیں۔ تصویر کا پہلا (زیادہ بڑا) رخ یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں میں ’پن بجلی‘ کے چھوٹے منصوبے قائم کرنے کے لاتعداد اِمکانات موجود ہیں‘جن میں سے چند ایک مقامات پر استفادہ دکھائی بھی دیتا ہے لیکن اِس میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور مقامی افراد کی مالی و افرادی شراکت بہت کم ہے۔ پن بجلی سے روزگار کے مواقعوں اور زرعی پیداوار کی ترقی تک ہر شعبے میں شراکت و سرمایہ کاری بارے غوروخوض ہونا چاہئے‘ جس سے نہ صرف آسانیاں پیدا ہوں گی بلکہ معاشرے میں اِجتماعیت کا بھی دور دورہ ہوگا۔ تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ شہری ہوں یا دیہی‘ آبادی کے چھوٹے ہوں یا بڑے مراکز ہر ایک میں پائے جانے والے اکثر مسائل کا حل موجود اور اجتماعیت میں پوشیدہ ہے لیکن اگر کوئی ایسا ذریعہ‘ وسیلہ‘ قائد‘ رہنما‘ کارکن‘ مفکر‘ دانشور‘ مبلغ‘ حکیم یا معلم میسر آ جائے جو عوام میں ذمہ داری اور احساس ذمہ داری پھونک دے تو ہر عمر کے جوانوں اور نوجوانوں میں ’عقابی روح‘ بیدار ہو سکتی ہے جس کے بعد سماجی ترقی کے اہداف یکے بعد دیگرے حاصل ہوتے چلے جائیں گے! مثال کے طور پر کوڑا کرکٹ تلف کرنے کے لئے مقررہ مقامات جہاں کہیں قرب و جوار میں موجود ہیں صرف اُنہی مقامات پر گندگی ڈالی جائے اور جہاں اَیسے مقامات کا تاحال تعین نہیں وہاں نشاندہی کر کے متعلقہ حکومتی اداروں کو مطلع کیا جائے تو پہلا ہدف موجود وسائل سے بھی صفائی کی صورتحال میں بہتری ممکن ہے۔ گلی کوچوں‘ سڑک کنارے اور خالی قطعات اراضی (پلاٹس) میں یہاں وہاں گندگی پھینکنے سے نہ صرف ماحول آلودہ ہوتا ہے۔ تعفن پھیلتا ہے۔ مکھیاں مچھر اور کیڑے مکوڑوں کی افزائش ہوتی ہے بلکہ اِس سے شہری و دیہی علاقوںکا حسن بھی ماند پڑتا ہے اور بارش کی صورت گندگی بہہ کر نکاسی¿ آب کے نظام کو بھی مفلوج کر دیتی ہے۔ بدگمانیاں بہت ہو چکیں۔ سوچ اور اعتماد ضروری ہے۔ مطالبات بہت ہو چکے سوچ اور عمل ضروری ہے۔ گردوپیش میں موجود مثالوں اور وسائل میں موجود مسائل کا حل (کہیں نہ کہیں) موجود ہے۔