سیاسی مخالفین کو مفت علاج کی پیشکش

 صوبائی حکومت نے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور اے این پی کے قائد اسفندیارولی کو پیش کش کی ہے کہ وہ صحت انصاف کارڈ سے اپنا علاج کروائیں کیونکہ ان کے خاندان بھی مفت علاج کرنے کے اہل ہیں۔وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے اطلاعات نے لاہور میں میڈیا سے گفت گو کرتے ہوئے یہ بات انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کہی تھی مگر سوشل میڈیا پر اسے طنز کے طور پر اچھالا گیا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمان اور اسفندیارولی خان خیبر پختونخوا کے سکونتی باشندے ہونے کے ناطے صحت انصاف کارڈ سے صوبے کے کسی بھی اچھے ہسپتال میں دس لاکھ روپے تک مفت علاج کرواسکتے ہیں لیکن یہ سہولت ملنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہرکوئی مفت علاج کرانے کیلئے منہ اٹھا کرہسپتال پہنچ جائے۔ یہ سہولت فی الحال صرف ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کو حاصل ہے اور کسی صحت مند شخص کو ہسپتال میں داخل نہیں کیاجاسکتا۔ہمارے ہسپتالوں پر حقیقی مریضوں کو اتنا بوجھ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں کے ہر بستر پر دو دو، تین تین مریض لٹائے جاتے ہیں ایسے میں تندرست  لوگوں کے لئے ہسپتالوں میں گنجائش کہاں باقی رہتی ہے۔صوبے کی پوری آبادی کیلئے صحت انصاف کارڈ سے مفت علاج کرانے کی سہولت بلاشبہ خیبر پختونخوا حکومت کا فلیگ شپ منصوبہ ہے اس سے بڑے لوگ،جاگیردار، صنعت کار، سرمایہ دار، برآمدکنندگان اور سیاسی قائدین استفادہ کریں یا نہ کریں۔ مگر تنخواہ دار، مزدور کار، متوسط اور غریب طبقے کیلئے یہ سہولت ایک بڑی نعمت ہے۔آج ڈاکٹروں کی فیس، لیبارٹری ٹیسٹوں کے اخراجات اور ادویات کی قیمتیں اتنی بڑھ گئی ہیں کہ عام آدمی کیلئے علاج کروانا عیاشی کے زمرے میں آگیا ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت نے ملاکنڈ، ہزارہ اور پشاور ڈویژن کی تمام آبادی کو یکم جنوری سے مفت علاج کی سہولت فراہم کردی ہے اور آئندہ ایک ماہ کے اندر یہ سہولت صوبے کے ہر خاندان تک پہنچ جائے گی خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں بھی صحت انصاف کارڈ سے مفت علاج کی سہولت یکم فروری سے فراہم کردی گئی ہے۔ قبائلی اضلاع کو بھی مارچ تک صحت کارڈ سے منسلک کیاجائے گا۔ اب تک صوبے کے 18 اضلاع میں صحت کارڈ پلس پر مفت صحت سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں صوبے میں اس وقت 100 سے زائد ہسپتال صحت کارڈ پلس پر مفت صحت سہولیات فراہم کر رہے ہیں جبکہ کئی ہسپتال چند ضروری محکمانہ کارروائی کے بعد آئندہ ہفتے سروسز کا آغاز کریں گے جس کے بعد ہسپتالوں کی یہ تعداد 160 سے زائد ہو جائے گی۔ پشاور میں اس وقت 23 ہسپتال صحت کارڈ پر مفت صحت سہولیات مہیا کر رہے ہیں جبکہ مزید 5 ہسپتالوں کو گروپ میں شامل کیا جائے گا۔ سوات میں 14، ایبٹ آباد میں 8، چترال میں 3‘اپر دیر 2‘ لوئر دیر 8‘ ملاکنڈ 5‘شانگلہ 6‘ بٹگرام 5‘مانسہرہ 4‘ بونیر 3‘ہری پور 2‘مردان اور صوابی میں دس دس، نوشہرہ 5 اور چارسدہ میں 4 ہسپتال آپریشنل ہیں جبکہ ان اضلاع کے مزید 21 ہسپتال آئندہ چند دنوں میں آپریشنل ہو جائیں گے۔ یکم فروری سے کوہاٹ اور ہنگو میں پانچ پانچ، کرک میں 2، بنوں 6، لکی مروت 4، ٹانک ایک، اور ڈیرہ اسماعیل خان میں 6 ہسپتالوں نے صحت کارڈ پلس پر مفت صحت سہولیات کی فراہمی شروع کردی ہے۔غریبوں کے لئے یہ سہولت کسی نعمت سے کم نہیں،تاہم اس عوامی فلاحی منصوبے سے ناجائز فائدہ اٹھانے اور مالی و انتظامی بے قاعدگیوں پر قابو پانے کے لئے ٹھوس اور جامع حکمت عملی طے کرنی ہوگی کیونکہ ماضی میں بھی اس جیسے عوامی فلاحی منصوبوں سے مراعات یافتہ لوگ ہی فائدہ اٹھاتے رہے ہیں اور حقیقی مستحقین کو محروم رکھا جاتا رہا ہے۔ ہسپتالوں، ادویات اور طبی آلات فراہم کرنے والوں کے حسابات کی اچھی طرح جانچ پڑتال ہونی چاہئے تاکہ غریبوں کے حقوق پر کسی کو ڈاکہ ڈالنے کا موقع نہ ملے۔