تیئس جنوری دوہزار اکیس: پشاور میں 10 روزہ صفائی مہم کا آغاز کیا گیا جو 3 فروری تک جاری رہے گی اور ابتدائی پانچ دنوں کے دوران 1473 ٹن کوڑا کرکٹ اُٹھانے اور تلف کرنے کا دعویٰ کیا گیا ماضی و حال کا فرق یہ ہے کہ اِس مرتبہ ’صفائی مہم‘ کو تین روز کی بجائے دس روز کے لئے مرتب کیا گیا ہے۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ ماضی میں اِس قسم کی صفائی مہم صرف عیدین (عیدالفطر یا بالخصوص عیدالاضحیٰ) کے مواقعوں پر دیکھنے میں آتی تھی اور تیسرا قابل ذکر فرق یہ ہے کہ اِس مرتب میں اساتذہ‘ علماء اور وکلاء کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں تاکہ صفائی مہم کو زیادہ سے زیادہ کامیاب بنانے کے لئے عوام کا تعاون حاصل کیا جا سکے۔بنیادی نکتہ ’عوام کا تعاون‘ ہے جو بنا شعور‘ آگاہی‘ خواندگی اور شراکت داری و اجتماعی ذمہ داری کے احساس جیسے 5 محرکات کے بنا ممکن نہیں۔ کسی بھی حکومتی ادارے کیلئے ممکن ہی نہیں کہ وہ تن تنہا اور اپنے تمام تر وسائل کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی شہر سے گندگی کو ختم کر سکے جبکہ پشاور کی صورتحال یہ ہے کہ اِس کی حدود کے آغاز و اختتام کا درست اندازہ بھی نہیں ہے اور پشاور کے وسائل پر جہاں مقامی آبادی کا بوجھ ہے وہیں مسلسل نقل مکانی کی وجہ سے پشاور پھیل رہا ہے اور ایسی صورت میں صفائی ستھرائی مہمات‘ تنہا اداروں کی کوشش سے کامیاب نہیں ہو سکتی۔ پینے کے پانی اور صفائی کے انتظامات و ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پشاور کو واضح طور پر پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ فصیل شہر کے داخلی علاقے‘ فصیل شہر سے متصل رہائشی علاقے‘ مضافاتی شہری علاقے‘ مضافاتی دیہی علاقے اور زیرتعمیر (جزوی یا کلی آباد) رہائشی بستیاں۔ اِس الگ تقسیم کو باآسانی مرکزی (وسطی) اور شمالی مشرقی جنوبی اور مغربی علاقوں کی صورت بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ کراچی میں کیا گیا ہے اور اگر موجودہ بلدیاتی بندوبست ہی کو دیکھا جائے تو پشاور کے چار ٹاؤنز اپنی جگہ موجود ہیں جن کی حدود کا ازسرنوتعین کرتے ہوئے اندرون شہر (فصیل شہر کے داخلی علاقوں) کو الگ کیا جا سکتا ہے جس کے لئے اکتوبر 2018ء میں شروع کئے ایک منصوبے کو قابل عمل بنایا جا سکتا ہے جس کا اعلان پورے زور و شور سے کیا گیا تھا اور بلند بانگ دعوے کئے گئے تھے کہ ”والڈ سٹی اتھارٹی (Walled City Authority)“ بنائی جائے گی۔ اگرچہ مذکورہ اتھارٹی کا مقصد صرف آثار قدیمہ سے متعلق اثاثوں کی حفاظت و بحالی تھا لیکن اگر اِس میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور صفائی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات کو بھی شامل کر لیا جائے تو کوئی حرج نہیں اور نہ ہی مضائقہ ہے۔