پشاور میں پانی کا ترسیلی نظام کئی مقامات پر نکاسی¿ آب کے نالے نالیوں سے ہو کر گزرتا ہے‘ جس کی وجہ سے یرقان و دیگر بیماریاں عام ہیں لیکن تب بھی توجہ دلائی گئی تھی اور آج جبکہ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے نئے انتظامی سربراہ مقرر ہوئے ہیں تو دوبارہ دست بستہ گزارش ہے کہ پشاور کےلئے پینے کے پانی کی فراہمی اور نکاسی¿ آب سے متعلق مسائل صرف یونین کونسل نمبر گیارہ ہی کے نہیں بلکہ پورے پشاور کے ہیں اور اندرون و بیرون پشاور جہاں کہیں ٹیوب ویلوں کے ذریعے پانی کی فراہمی اور نکاسی¿ آب سمیت صفائی ستھرائی کی ذمہ داری ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے ذمے ہے وہاں وہاں کا منظرنامہ ایک جیسا ہے اور ضرورت اِس بات کی ہے کہ تمام ٹیوب ویلوں اور پانی کے ترسیلی نظام کا تفصیلی جائزہ لیا جائے۔ ترسیلی پائپوں کے نقشہ جات تیار کئے جائیں۔ زیرزمین دفن پائپ لائنوں کو منقطع کر کے پانی کا ترسیلی نظام اِس انداز سے مرتب کیا جائے کہ ٹیوب ویل سے پانی کے اخراج کو مدنظر رکھتے ہوئے منصوبہ بندی میں پانی ہر صارف تک پہنچ سکے۔ گیارہ نومبر دوہزاربیس کے روز پبلک ہیلتھ اِنجنیئرنگ اور دیگر متعلقہ اداروں کے ماہرین نے دریائے باڑہ سے پشاور شہر کےلئے پانی لانے کے منصوبے پر مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینے پر اتفاق کیا۔ ذہن نشین رہے کہ دریائے باڑہ سے پشاور کےلئے پانی کی فراہمی کوئی نیا اور منفرد منصوبہ نہیں بلکہ قیام پاکستان کے بعد کئی دہائیوں تک اہل پشاور دریائے باڑہ ہی کے پانی سے سیراب و شاداب ہوتے رہے ہیں اور آج بھی پشاور کے بزرگ اکثر باڑے کے پانی کی مٹھاس اور ذائقے کو یاد کرتے ہیں لیکن فیصلہ سازوں کے تجاہل عارفانہ کے باعث قدرت کے فراہم کردہ ایک اہم ذریعے (دریائے باڑہ) کی بجائے ٹیوب ویلوں پر انحصار بڑھتا چلا گیا اور یوں باڑہ سے آنے والے پانی کی راہداریاں اور نہریں آلودہ ہوتی چلی گئیں۔ میونسپل کارپوریشن کی عدم دلچسپی کے باعث صاف و شفاف پانی کا نہری نظام جو پشاور شہر کے بعض وسطی علاقوں سے ہو کر گزرتا تھا نکاسی¿ آب کےلئے استعمال ہونے لگا اور اِس سلسلے میں عدالت عالیہ کے ایک حکمنامے کے باوجود بھی تاحال پشاور سے گزرنے والے نہری نظام اور نکاسی¿ آب کو الگ نہیں کیا جا سکا۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے کہ کس طرح زرعی مقاصد اور پینے کےلئے استعمال ہونے والے پانی کے ایک اہم ذریعے سے پشاور کو محروم کر دیا گیا۔ وقت کے ساتھ سہولت نے بھی ستم ڈھایا اور ماضی میں پشاور کے مختلف حصوں میں کنوو¿ں سے پانی حاصل کرنے کا رواج بھی نہیں رہا۔ گھر گھر نلکے لگ گئے لیکن گھر گھر پانی ذخیرہ کرنے کی ٹینکیاں موجود نہیں جس کی وجہ سے پانی ذخیرہ نہیں ہوتا اور ٹیوب ویلوں کو مسلسل کئی کئی گھنٹوں تک چلانا پڑتا ہے کیونکہ شہریوں کو عادت پڑ گئی ہے کہ اُنہیں ہر وقت ٹیوب ویل سے آنے والا تیزدھار پانی چاہئے جبکہ ٹیوب ویلوں کے ذریعے زیادہ مقدار میں پانی نکالنے کے سبب نہ صرف زیرزمین پانی کی سطح کم ہوئی ہے بلکہ ٹیوب ویلوں توانائی کے ضیاع کا باعث بھی ہیں۔ بہرحال پبلک ہیلتھ انجنیئرنگ کے مذکورہ اجلاس میں 4 رکنی کمیٹی بنائی گئی تھی‘ جس نے ”باڑہ ڈرنکنگ واٹر اسکیم“ کو عملاً ممکن بنانا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان خان کی دلچسپی و توجہ کے باعث یہ پیشرفت ہوئی تھی۔ گورنر شاہ فرمان کا تعلق پشاور سے ہے اور نہ صرف صوبائی دارالحکومت میں پانی کی قلت سے بخوبی واقف ہیں بلکہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کس طرح ٹیوب ویلوں کی بہتات کے سبب پشاور میں پانی کی زیرزمین سطح تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ پشاور کے لئے دریائے باڑہ سے پانی لانے کے سوا کوئی دوسرا کم خرچ اور پائیدار حل نہیں کیونکہ موسم گرما کی شدت میں جب بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے اور بالخصوص پشاور کے مضافاتی دیہی علاقوں میں بجلی کی طویل اعلانیہ و غیراعلانیہ بندش کے سبب پانی کی فراہمی کانظام بھی مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔ گورنر شاہ فرمان کا تعلق بھی ایسے ہی ایک مضافاتی دیہی علاقے ’بڈھ بیر‘ سے ہے جہاں صرف موسم گرما ہی نہیں بلکہ سرما میں بھی بجلی کی فراہمی معطل رہتی ہے کیونکہ ’پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی (پیسکو)‘ کی جانب سے اُن تمام فیڈرز پر بجلی کی فراہمی کلی یا جزوی طور پر معطل کر دی گئی ہے جہاں کے ’لائن لاسز (بشمول بجلی کی چوری)‘ پر باوجود کوشش بھی قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ پشاور ہر سمت پھیل رہا ہے۔ گنجان آباد شہر کی حدود میں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہی۔ سبزہ زار اور باغات کی اراضی قبضہ ہو چکی ہے۔ تجاوزات کی بھرمار الگ سے ہے جبکہ بڑھتی ہوئی آبادی کےلئے پینے کے پانی کی ضروریات بذریعہ ٹیوب ویل پوری کرنے کی ہر حکمت‘ کوشش و تدبیر اگر ناکام ثابت نہ بھی ہو لیکن کچھ عرصے بعد ناکافی قرار پائے گی۔ اِس لئے دانشمندی اِسی میں ہے کہ پشاور کے قرب و جوار میں پانی کے موجود ذخائر کو نعمت اور تحفے کی اہمیت کا خاطرخواہ ادارک کرتے ہوئے اِس سے استفادہ کیا جائے اور یکساں ضروری ہے کہ پشاور کے گردونواح میں پانی کے قدرتی ذخائر کو محفوظ رکھنے اور اُنہیں ترقی دینے پر بھی توجہ دی جائے۔