دوہزار پندرہ: تین دسمبر صوبائی وزیر بلدیات عنایت خان اور ضلع ناظم ارباب عاصم نے کچی آبادی (چنگڑا آباد) سے 10 روزہ صفائی مہم کا آغاز کیا‘ اِس مہم کو ’صفا پشاور‘ کا نام دیا گیا۔دوہزار اُنیس: بائیس جنوری کے روز واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسیز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی) کے زیرانتظام 43 یونین کونسلون میں صفائی مہم کا آغاز چوک یادگار پر منعقدہ تقریب سے ہوا اور اِس موقع پر ’صفا پیخور‘ نامی موبائل فون ایپلی کیشن اور شہریوں کےلئے صفائی ستھرائی یا پینے کے پانی سے متعلق شکایات درج کرانے کا ٹیلی فون نمبر 1334 متعارف کروائے گئے جن کی 24گھنٹے عوام کی خدمت کے لئے دستیاب اور شکایات کے فوری حل کا وعدہ کیا گیا۔ دوہزار اکیس: 3 فروری‘ 10 روزہ صفائی مہم کے آخری دن ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے فیس بک صفحے پر براہ راست نشر ہونے والی تقریب میں ماضی و حال کی صفائی مہمات کا جائزہ و احوال پر مبنی ’کارکردگی کا خلاصہ‘ پیش کرنے کی بجائے صفائی کی اہمیت و ضرورت پر زیادہ بات ہوئی اور ایک مقرر نے ’صفائی مہم‘ کو کامیاب بنانے کے لئے مساجد کے ذریعے مہمات چلانے کی تجویز پیش کی‘ اور حاضرین کی اکثریت نے اِس تجویز کی تائید کی۔ڈبلیو ایس ایس پی کے قیام (ماضی و حال کے دریچوں) سے تین مختلف مواقعوں پر ’خصوصی صفائی مہمات‘ کا مقصد صفائی ستھرائی کے عمل میں خاص و عام کا تعاون حاصل کرنا ہے جس میں تاحال کامیابی نہیں ہو سکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر مرتبہ پہلے سے زیادہ دورانئے اور پہلے سے زیادہ بڑے پیمانے پر تشہیر کے باوجود پشاور میں صفائی کا ہدف اور عمل کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو رہا جنوری 2019ءمیں ’صفا پیخور (Safa Pekhawar)‘ کے نام سے موبائل فون ایپ کا اجرا¿ کیا گیا جس کی کامیابی و ناکامی کےلئے اُسی کسوٹی (پیمانے) کا استعمال کیاجائے گا جو دیگر موبائل فون ’ایپلی کیشنز‘ کے لئے اختیار کیا جاتا ہے کہ اِسے گوگل پلے سٹور یا ایپل سٹور سے حاصل (ڈاو¿ن لوڈ) کرنے والوں کی تعداد دیکھی جاتی ہے۔ دو سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ’صفا پیخور‘ نامی ایپ کو گوگل سٹور سے چند سو صارفین ہی نے حاصل کیاہے جن کا مجموعی شمار ایک ہزار سے کچھ زیادہ بنتا ہے جبکہ ڈبلیو ایس ایس پی کے اپنے ملازمین کی تعداد 4 ہزار سے زیادہ ہے اور اگر صرف ملازمین یا خدمات فراہم کرنے والے شعبوں کے اہلکار ہی اِس ایپ کو استعمال کر رہے ہوتے اور عام آدمی کو اُمید ہوتی کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے اُن کی شکایات متعلقہ حکام تک پہنچ رہی ہیں اور نہ صرف شکایات پہنچ رہی ہیں بلکہ اُن پر عمل درآمد بھی ہو رہا ہے تو صورتحال قطعی مختلف ہوتی۔ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد بڑی آسانی سے سرکاری ملازمین (افسرشاہی) کے جھانسے میں آ جاتی ہیں اور یہی طرز عمل تحریک انصاف کے ساتھ بھی پیش آیا جس کی توجہ ’اِی گورننس‘ کی جانب سے تھی اور جون 2013ءسے صوبائی حکومت نے ’اِی گورننس‘ لاگو کرنے کی کوشش کی لیکن اگر خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف حکومت کے پہلے پانچ سالہ دور (دوہزار تیرہ سے اٹھارہ) اور (دوہزار اٹھارہ سے جاری) دوسرے ڈھائی سالہ دور میں جاری کی گئیں موبائل فون ایپلی کیشنز اور ویب سائٹس کی تعداد اور اِن کی افادیت و کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو بخوبی علم ہو جائے گا کہ بہت ساری ایپس جاری (لانچ) کرنے کے بعد سے ’اپ ڈیٹ‘ بھی نہیں ہوئیں یا اُنہیں استعمال کرنے والوں کی شکایات اور تبصروں کو جواب تک نہیں دیا گیا‘ جس کے باعث سافٹ وئر تو موجود ہیں لیکن اِن سے خاطرخواہ استفادہ نہیں ہو رہا۔ تصورکریں کہ میونسپل کارپوریشن کے دور میں جو کام تھوڑے خرچے میں ہورہا تھا اب کئی گنا زیادہ اخراجات میں بھی انجام نہیں پارہا۔ صفائی کے عملے کی صورتحال یہ ہے کہ پشاور کی ایسی یونین کونسلیں بھی ہیں جہاں پچاس ہزار سے زائد آبادی کےلئے ’6 سوئپرز اور 1 کٹھہ قلی‘ فراہم کیا گیا ہے جبکہ اِن سات افراد کے عملے کی نگرانی 10 افراد کرتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ کٹھہ قلی نالے نالیوں کی تہہ میں جمع ہونے والی گندگی نکالنے والے کو کہا جاتا ہے جبکہ سوئپر (جھاڑو کش) صرف جھاڑو لگاتا ہے۔ ماضی میں جھاڑو لگانے سے قبل پانی کا چھڑکاو¿ کیا جاتا تھالیکن یہ روایت مشک بانوں (ماشکیوں) کے ساتھ ہی ختم ہو گئی ہے اور اب جھاڑو کش نصف گردوغبارہوا میں اُڑاتے ہوئے ایک مسئلے کو حل کرنے کی کوشش میں آلودگی بڑھاتے ہوئے دوسرے مسئلے کی شدت میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔