پشاور مرکز اور مرکزِ نگاہ ہے۔ صوبائی حکومت کی توجہ دلانے پر ’واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسزپشاور (ڈبلیو ایس ایس پی) کی ’10 روزہ خصوصی صفائی مہم‘ تین فروری کے روز اختتام پذیر ہونے پر جو نتائج اور برسرزمین حقائق سامنے آئے ہیں اُن کا تعلق ڈبلیو ایس ایس پی کی کارکردگی و فعالیت میں اضافے سے لیکر منصوبہ بندی کے فقدان سے متعلق ہیں۔ 1: دس روزہ صفائی مہم میں کوڑا کرکٹ اٹھانے کے عمومی معمولات کے علاو¿ہ چوبیس سو ٹن (چوبیس لاکھ کلوگرام) اضافی کوڑاکرکٹ (ٹھوس گندگی) اُٹھایا گیا۔ 2: صفائی سے متعلق 10 روز میں 10 مختلف علاقوں میں اجتماعات کئے گئے تاکہ شہریوں میں صفائی سے متعلق شعور اُجاگر کیا جا سکے۔ 3: صفائی کی اہمیت و تعاون سے متعلق پیغامات نہ صرف ذرائع ابلاغ بلکہ مساجد اور بالخصوص نماز جمعہ کے اجتماعات کے ذریعے جاری کئے گئے۔ 4: صفائی مہم کے دوران بالخصوص اُن مقامات کی صفائی کی گئی جہاں سالہا سال سے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ نجی ملکیت والے یہ قطعات اراضی (پلاٹس) وہ مقامات ہیں جو آبادی کے درمیان خالی پڑے ہیں اور انہیں سرمایہ کاری یا فروخت کی غرض سے رکھا گیا ہے اور اِن پر تعمیرات نہیں ہو رہیں۔ 5: دس روزہ صفائی مہم میں ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کی موجودہ افرادی قوت اور وسائل سے استفادہ کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ خصوصی مہمات کی صورت اضافی کام ممکن ہے تو اگر عمومی حالات کو بھی خصوصی حالات سمجھا جائے تو ہر ماہ کم سے کم پانچ ہزار ٹن اضافہ کوڑا کرکٹ باآسانی اُٹھایا جا سکتا ہے۔مارچ 2019ءمیں خیبرپختونخوا حکومت نے ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ساتھ ’شہری سہولیات میں بہتری‘ کے لئے مالی امداد سے متعلق ایک معاہدے پر دستخط کئے۔ مذکورہ معاہدے اور منصوبے کی تمام تر دستاویزات بشمول تفصیلات بینک کی ویب سائٹ (adb.org/projects) پر موجود ہیں جنہیں منصوبہ نمبر 51036-003 کے عنوان سے بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ شہروں میں بنیادی و بلدیاتی سہولیات کا معیار بہتر بنانے سے متعلق حکمت ِعملی کے تحت ملنے والے مالی وسائل (بیرونی قرض و امداد) سے اکتوبر 2020ءمیں نئے ضم شدہ اضلاع (قبائلی علاقوں) کی 25 ٹاو¿ن میونسپل اتھارٹیز (ٹی ایم اوز) کو گندگی اُٹھانے کے لئے 50 گاڑیاں دی گئیں اور اِس قسم کی گاڑیاں و آلات اُن ’ٹی ایم ایز‘ کو بھی دینے کا اعلان کیا گیا جنہیں حال ہی میں تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ اقدام اور اعلان جس اعلیٰ سطحی اجلاس میں سامنے آیا ۔ ذہن نشین رہے کہ شہری سہولیات کے معیار میں بہتری اور بلدیاتی خدمات میں اضافے و ترقی کےلئے پشاور‘ کوہاٹ‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ سوات‘ ایبٹ آباد اور مردان میں منصوبے جاری ہیں‘ جن کے لئے مالی وسائل صوبائی خزانے کے علاوہ ’ایشین ڈویلپمنٹ بینک‘ سے بھی حاصل کئے گئے ہیں۔ مذکورہ حکمت عملی کا مختصر ذکر اور سرسری حوالہ دینے کا مقصد بیان کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جب ہمارے سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز کوئی ایسی حکمت عملی وضع کرتے ہیں جس کےلئے بیرونی مالی امداد حاصل کرنے کےلئے معاہدے کئے جاتے ہیں تو پھر اُن کی کارکردگی پر صرف اپنوں (دیگر صوبوں) ہی کی نہیں بلکہ غیروں (عالمی مالیاتی اداروں) کی بھی نظریں ہوتی ہیں۔ شہری سہولیات میں اضافہ ہو یا شہری ترقی‘ بلدیاتی نظام ہو یا بلدیاتی نمائندوں اور ملازمین کی تربیت ہر کام کے لئے بیرونی امداد پر انحصار ایک ایسی رسم (فیشن) بن چکی ہے کہ ہر نئی حکومت کے دور میں‘ نئے عزم کے ساتھ مالی امداد جس کے ساتھ قرض بھی جڑا ہوتا ہے لیا جاتا ہے لیکن ضروریات وہی کی وہی رہ جاتی ہیں اور صوبے کی مالیاتی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ شہری سہولیات جس کے 2 بنیادی جز ہیں‘ 1: پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور 2: کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) تلف کرنے جیسے اہداف موجود وسائل سے حاصل نہیں کئے جا سکتے؟مقامی مسائل : مقامی وسائل (یکم فروری)‘ پشاور: خدمات کا معیار (2 فروری)‘ پشاور کہانی: نیا باب (3 فروری) اور پشاور کہانی: صفا پیخور (چار فروری)‘ کے عنوانات کی ذیل میں ایک مسلسل موضوع اور ضرورت کے مختلف پہلوو¿ں پر روشنی ڈالتے ہوئے جس ایک نکتے کی جانب توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ وسائل پر انحصار کرتے ہوئے خاطرخواہ عملی اقدامات کے بغیر درپیش چیلنجز (مسائل و مشکلات) کا حل ممکن نہیں۔ وقت اور مہلت دونوں گزر رہے ہیں۔ تاریخ پر تاریخیں بدل رہی ہیں اور زمینی حالات جوں کے توں برقرار ہیں۔ دس روزہ صفائی مہم کا آغاز و اختتام ہونے کے باوجود بھی پشاور میں بعض مقامات پر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر دکھائی دے رہے ہیں جبکہ جن مقامات پر سالہا سال سے جمع ہونے والی گندگی اُٹھائی گئی ہے وہاں پھر سے گندگی ڈالنے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اِس لئے ضرورت اِس اَمرکی ہے کہ بنا قطعات اراضی کے مالکان کو نوٹسیز جاری کئے جائیں اور ضلع پشاور سمیت پورے خیبرپختونخوا میں جہاں کہیں رہائشی و تجارتی علاقوں یا آبادی کے مراکز میں خالی قطعات اراضی (پلاٹس) پڑے ہیں اُن کے گرد چاردیواری بنانے کا حکم جاری کیا جائے تاکہ یہ اور دیگر پلاٹس کوڑا کرکٹ کے ڈھیروں میں تبدیل نہ ہوں۔ صوبائی حکومت کو اِس بات بھی نوٹس لینا چاہئے کہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگز پر عائد پابندی کی خلاف ورزیاں پھر سے دیکھنے میں آ رہی ہیں‘ جو ماحول دشمن ہیں اور شاپنگ بیگز میں لپٹا ہوا کوڑا کرکٹ نہ صرف نکاسی¿ آب کے بہاو¿ کےلئے رکاوٹ بنتا ہے بلکہ اِس کی تلفی کےلئے سینکڑوں برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے اور اِسی بنا پر اِسے ’ماحول دشمن جنس‘ قرار دیا جاتا ہے۔ گلی گلی شاپنگ بیگز کی فروخت یا استعمال پر پابندی کے اطلاق کی بجائے اگر شاپنگ بیگز کی تیاری میں استعمال ہونے والے میٹریل اور آلات (مشینری‘ پرزہ جات وغیرہ) کی درآمد اور صنعتی تیاری پر پابندی عائد کی جائے تو اِس کے زیادہ بہتر (خاطرخواہ) نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔