پشاور کے طول و عرض میں غیرقانونی رہائشی بستیوں اور قوانین و قواعد کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے جائیداد کی خریدوفروخت کا نوٹس لیتے ہوئے ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر) کی جانب سے ’ستائیس جنوری دوہزار اکیس‘ کے روز ایک حکمنامہ جاری ہوا‘ جس میں پشاور کے 181 رہائشی منصوبوں کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اُن پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اِس سلسلے میں تفصیلی احوال تیس جنوری دوہزاراکیس بعنوان ’شریک جرم نہ ہوتے تو ……!‘ شائع ہو چکا ہے جس میں اِس بات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی تھی کہ وہ صرف غیرقانونی رہائشی منصوبوں کی نشاندہی نہ کی جائے بلکہ ’اپنی نوعیت کے اِس منفرد جرم میں شریک جملہ فریقین کے خلاف قانونی کاروائی بھی ہونی چاہئے۔ اِس سلسلے میں تازہ ترین پیشرفت چار فروری سامنے آئی جب 181 مبینہ غیرقانونی رہائشی منصوبوں میں سے 119 کے خلاف کیسز متعلقہ تھانہ جات میں درج کروائے گئے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ ضلع پشاور کی حدود میں رہائشی منصوبہ (ہاؤسنگ سوسائٹی) بنانے سے متعلق اور سال 2019ء میں منظور ہوئے ایک قانون کے تحت پیشگی اجازت نامہ حاصل کرنا لازمی ہوتا ہے تاہم رہائشی کالونیاں بنانے سے متعلق قواعد پورا کئے بغیر قطعات اراضی کی فروخت کی جاتی ہے اور اربوں روپے منافع کما کر کسی نئے نام سے ایسا ہی دوسرا غیرقانونی رہائشی منصوبہ متعارف کروا دیتے ہیں۔ اِس عمل سے 2 طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ سب سے پہلے تو دیہی علاقوں کی زرخیز زرعی اراضی اونے پونے داموں حاصل کی جاتی ہے جو اپنی جگہ ایک غیرقانونی اقدام ہے کہ قابل کاشت رقبے پر یوں رہائشی بستیاں آباد نہیں کی جاسکتیں۔ دوسرا اِن نجی رہائشی بستیوں میں نکاسیئ آب‘ صفائی ستھرائی سے متعلق سہولیات اور آمدورفت کے لئے خاطرخواہ کشادہ سڑکیں مختص نہیں کی جاتیں جس کے باعث چاروں اطراف پھیلتے پشاور کے کئی ایسے علاقے بھی ہیں جہاں شہری سہولیات کا معیار دیہی علاقوں سے بھی بدتر نظر آتا ہے۔ضلع پشاور کی 4 تحصیلیں ہیں اور اِن چاروں تحصیلوں میں غیرقانونی رہائشی بستیاں ’دریافت‘ ہوئی ہیں۔ تحصیل شاہ عالم کی حدود میں 123‘ تحصیل سٹی کی حدود میں 25‘ تحصیل صدر کی حدود میں 24 اور تحصیل متنی کی حدود میں 9 غیرقانونی رہائشی بستیوں کی نشاندہی ہوئی تھی تاہم قابل ذکر ہے کہ مجموعی طور پر 181 رہائشی بستیاں ہی قواعد و ضوابط کے اصولوں پوری نہیں اُترتیں بلکہ جن رہائشی بستیوں کو قانونی ہونے کی اسناد (اجازت نامے) جاری کئے بھی گئے ہیں اُن کی حالت بھی زیادہ مثالی نہیں اور ہر جگہ تجاوزات نے شہری زندگی کی خوبصورتی کو ماند کر رکھا ہے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ متعلقہ حکومتی ادارے کسی رہائشی بستی کے قیام کا اجازت نامہ جاری کرنے کے بعد اُس وقت تک نگرانی کرتے ہیں جب تک اُس کی تکمیل نہیں ہو جاتی اور تکمیل کا اندازہ تعمیراتی نقشہ جات کی منظوری سے کیا جاتا ہے‘ جو ناکافی پیمانہ ہے کیونکہ اکثر رہائشی بستیوں کے نقشہ جات میں جو حصے کمرشل اور مختلف اقسام کی سہولیات کے لئے مختص کئے جاتے ہیں‘ اُنہیں منظوری ملنے کے بعد قطعات میں تقسیم کرکے فروخت کر دیا جاتا ہے۔ یوں ’چائنا کٹنگ‘ کہلانے والے عمل کی وجہ سے رہائشی بستیوں کے وسائل پر آبادی کا بوجھ بڑھ جاتا ہے جو رہائشیوں کے لئے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ اُمید ہے کہ جس طرح زیرتعمیر نجی رہائشی بستیوں کے غیرقانونی پہلوؤں کا نوٹس لیا گیا ہے اِسی طرح مکمل ہونے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز کا بھی اُن کے ’ماسٹر پلانز‘ کے مطابق جائزہ لیا جائے گا۔ زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ جیسے حکومتی فیصلہ سازوں نے اہل پشاور کو (بقول شاعر) تجویز دی ہو کہ ”خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لئے …… اِن میں جا کر مگر رہا نہ کرو (منیر نیازی)۔“ یعنی پشاور کے طول و عرض میں دلفریب و خوشنما ناموں سے پھیلی رہائشی بستیاں خوابوں کی طرح حسین ہیں‘ جہاں زندگی کی تمام سہولیات اور صحت مند‘ پُرفضا ماحول جیسی نایاب ہوتی آسائشوں کی فراہمی کا وعدہ کیا جاتا ہے جبکہ حقیقت اِس کے قطعی برعکس ہے۔ تازہ ترین پیشرفت میں پشاور پولیس نے جن 119 نجی رہائشی بستیوں کے خلاف ملنے والی شکایات پر ’ابتدائی تفتیشی رپورٹس (ایف آئی آرز)‘ درج کی ہیں اُن میں قانون (مجریہ) 2017ء کی 35ویں شق کی خلاف ورزی کا حوالہ دیا گیا ہے‘ اگرچہ جملہ فریقین بخوبی جانتے ہیں کہ قوانین و قواعد کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور ہو رہی ہے لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا اور نہ ہی یہ آخری موقع ہے۔ المیہ اپنی جگہ المیہ ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز اور حکومتی ادارے اُس وقت کاروائی نہیں کرتے جب قانون کی خلاف ورزی ’سرعام‘ ہو رہی ہوتی ہے‘ پشاورکی ”حالت ِزار“ کو بہ غور دیکھا جائے تو اِس شہر کو غیروں کی نہیں بلکہ اپنوں کی نظر لگ گئی ہے کہ گنجان آباد اندرون شہر کی گلی کوچوں سے بیرون شہر منتقل ہونے والے بارش سے بچنے کی کوشش میں پرنالے تلے جا پھنسے ہیں! ”اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو …… میں ایک دریا کے پار اُترا تو میں نے دیکھا (منیر نیازی)“