سندھ یاترا

کوئی سوا پانچ سال بعد کراچی جانے کااتفاق ہوا مقصد توسیروتفریح تھا تاہم صحافیانہ طبیعت کی وجہ سے خود کو مطالعہ اورمشاہدہ سے نہ روک سکے‘پروگرام کراچی کاتھا تاہم اس میں ٹھٹھہ بھی شامل ہوگیا‘یوں سندھ یاترا ہوگئی کوشش رہی کہ جب تک کراچی میں ہیں مقامی صحافیوں،حکومت و اپوزیشن کے نمائندوں اور عام لوگوں کے ساتھ تفصیلی نشستوں کابھی اہتمام ہو تاکہ پتہ چل سکے کہ سندھ اورکراچی اس وقت کیاسوچ رہاہے کیونکہ کراچی کی تینوں بڑی جماعتیں یعنی پی ٹی آئی،پی پی پی اور ایم کیو ایم حکومتوں کاحصہ ہیں اس کے باوجودبھی کراچی کی مظلومیت کے حوالہ سے تینوں جماعتیں سراپا احتجاج بھی دکھائی دیتی ہیں حکومتی نمائندوں سے ملاقاتوں کی ذمہ داری بلاول ہاؤس کے نوجوان اور صحافیوں کے ساتھ قریبی روابط رکھنے کے لئے مشہور میڈ یا کوآرڈینیٹر عثمان غازی نے بخوبی اداکی ان کی معرفت سے پہلی تفصیلی نشست کراچی میں وزیرٹرانسپورٹ سید اویس شاہ کے ساتھ ہوئی اویس شاہ میں یہ خوبی دیکھی کہ ان تمام غلطیوں کا کھل کراعتراف کرنے سے کبھی نہیں کتراتے جو پیپلز پارٹی کی سابق صوبائی حکومتوں سے سرزد ہوئیں چنانچہ تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں ٹرانسپورٹ کے شعبہ پر جس قدر توجہ مبذول کرنی چاہئے تھی وہ نہ کی جاسکی جس کی وجہ سے بالخصوص کراچی میں صورتحال ابتر ہوتی چلی گئی تاہم اب وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی خصوصی دلچسپی کی بدولت کراچی میں ٹرانسپورٹ کادیرینہ مسئلہ حل کرنے کیلئے مختلف منصوبے تیار کئے گئے ہیں جن میں ایک ریڈ لائن اوردوسر ا یلو لائن ہے جن پر مجموعی طورپر ایک سو ارب روپے سے زائد کی لاگت آئے گی منصوبوں کی تکمیل اگلے ڈھائی تین سال کے دوران کرنے کی کوشش کی جائے گی جسکے ساتھ ہی کراچی کے لوگوں کو بھی جدید اورسستی ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسر آسکیں گی اویس شاہ نے تلخ سوالوں کے جواب بھی مخصو ص مسکراتے ہوئے انداز میں دیئے اور اس خواہش کابھی اظہار کیاکہ کسی وقت سکھر کادور ہ کرکے وہاں دی جانے والی صحت کی جدید ترین سہولیات کابھی جائزہ لیں انہوں نے اس بات سے اتفاق کیاکہ سندھ میں بارہ سال کے دوران ہونیوالے ترقیاتی کاموں کی تشہیر مناسب انداز میں نہیں ہوسکی ہے پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہونے کی وجہ سے اویس شاہ کو اپنے محکمہ کے تمام تکنیکی امور پر پور ی طرح سے عبور حاصل ہے ان کے دفتر سے نکلے تو سیدھے سند ھ کلچرل سنٹرگئے جہاں صوبائی وزیر سیاحت وثقافت سید سردار شاہ کے ساتھ محفل سجی جو خود بھی بہت ا چھے شاعر ہیں اس موقع پر سند ھ ٹورازم کارپوریشن کے ایم ڈی اعجاز شیخ اوردیگر افسران بھی موجود تھے صوبائی وزیر کی طرف سے سندھ میں سیاحت کے فروغ اور ثقافتی سرگرمیوں اورسندھی زبان کی ترویج کیلئے کئے جانیوالے اقدامات کے حوالہ سے تفصیل سے بتایا گیا یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ پورے ملک میں پہلی بار لینگوئج انجینئر نگ کاپراجیکٹ یہا ں شروع کیاگیاہے جس کامقصد سندھی زبان کو ڈیجیٹلائزیشن کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا اور ڈیجیٹل سکرین کے ذریعہ اس کی ترویج وتحفظ کو ممکن بناناہے سندھ حکومت نے ڈائریکٹوریٹ آف پرفارمنگ آرٹ بھی قائم کیاہواہے یوں وہاں لوک موسیقی کو سرپرستی حاصل ہوچکی ہے موہنجو داڑو،بھنبھور،مکلی،چوکنڈی قبرستان جیسے ثقافتی ورثے کے تحفظ کیلئے جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ بلاشبہ دکھائی بھی دے رہے تھے کیونکہ 2015ء میں جب مکلی قبرستان جانے کااتفاق ہواتھا توا س وقت قبرستان کسی اجڑی ہوئی بستی کامنظر پیش کررہاتھا حالانکہ یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہونے کی وجہ سے یہ قبرستان خصوصی توجہ کامستحق تھا مگر تب حالت بہت خراب تھی اس بار وہاں جاکر خوشگوارتبدیلیاں دیکھیں صفائی کے ساتھ ساتھ سیاحوں کی رہنمائی کیلئے بھی بہترین انتظامات دکھائی دیئے ریسٹ ہاؤس بھی قائم ہوچکاہے،ایک ہزار ایکڑ کے وسیع وعریض قبرستان دیکھنے کیلئے خصوصی شٹل سروس بھی شروع ہوچکی ہے اسی طرح ہالے جی اور کینجھر جھیل جاکر سیاحوں کیلئے کئے جانیوالے انتظامات کو بھی قابل تعریف پایا شاہجہانی مسجد بھی دیکھی تاہم اس پر ہمارے ایک ساتھی کابرجستہ تبصر ہ کافی دلچسپ رہاکہ مسجد کے اندر جاکر پتہ چلاکہ یہ مسجد صدیوں پرانی ہے تاہم باہر ٹھٹھہ شہر کی حالت بھی صدیوں پرانی ہی دکھائی دے رہی ہے اس تبصرہ سے ہمارے آخری روز کے میزبان وزیر اطلاعات ناصرشاہ اور وزیر تعلیم سعید غنی محظوظ تو ہوئے تاہم برامنانے کے بجائے دعوت دی کہ کبھی جاکر ضرورٹھٹھہ کی پسماندگی کی وجوہات تلاش کریں چار روزہ سندھ یاتر کے دوران بہت کچھ دیکھا اور اس خواہش کااظہار بھی کیا کہ تمام صوبوں کو ایک دوسرے کے کامیاب تجربات سے ہرصورت فائدہ اٹھاناچاہئے۔