عید کا موقع تھا اس وقت کے گورنر کو پتہ چلاکہ صوبہ کی ایک انتہائی اہم سیاسی شخصیت بستر علالت پر ہیں چونکہ اس شخصیت نے فقر ودرویشی کی زندگی گذاری تھی اس لیے گورنر نے خودداری کو مد نظر رکھتے ہوئے غیر محسوس انداز میں ان کی مالی مدد کی اپنی سی کوشش کی ۔ عید کے روز گورنر ہاﺅس کی طرف سے ان کو مٹھائی بھجوائی گئی ۔ شام کو جب مٹھائی کے ڈبے کھولے گئے تو ان مےں مٹھائی کی جگہ روپے پڑے ہوئے تھے ۔ گھر والوں نے جب انہےں بتایا تو ان کے چہرے کا رنگ بدل گیا ۔ غصہ سے کانپنے لگے ۔ فوری طور پر اپنے فرزند کو بلایا اور کہا کہ گورنر سے میری بات کراﺅ۔ان کے فرزندجب معاملہ کی تہہ تک پہنچے تو انہوںنے اپنے بابا کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ساتھ جو آدمی مٹھائی لے کر آیا تھا اسے فون کیا اور کہا کہ فوری طور پر آکر واپس لے جائےں ۔ شام کو جب یہ رقم واپس گئی تو ان کی طبیعت سنبھلی ۔ ان کا کہنا تھا کہ ساری زندگی جن آلائشوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھا اب اس عمر مےں ان سے کیوں خود کو داغدار کروں ۔ یہ ان کے فقر و استغناءکی انتہا تھی آج اسی مرد درویش کے انتقال کو گیارہ برس گذرچکے ہیں مگر ان کانام اور کردار آج بھی زندہ ہے جی ہاں ہم بات کررہے ہیں اجمل خٹک کی، آج ہی کے دن سیاست ،ادب اورصحافت کے حسین امتزاج پر مشتمل نامورقوم پرست رہنما ا س دار فانی سے کوچ کرگئے تھے اجمل خٹک کی شخصیت کے حوالے سے لاکھوں الفاظ لکھ کربھی اتنا بھرپور خراج عقیدت پیش نہیں کیاجاسکتا جو کسی زمانے میں حبیب جالب مرحوم نے محض ایک جملے میں پیش کیاتھا معروف انقلابی شاعر حبیب جالب سے کسی نے پوچھا کہ آپ فلاں خٹک صاحب کو جانتے ہےں ۔ اپنے مزاج کے درویش صفت حبیب جالب نے کہا کہ بھئی مےں خٹک قبیلہ مےں سے صرف 2 کو ہی جانتا ہوں ۔ خوشحال خان خٹک یا پھر اجمل خٹک ۔ اس ایک جملے مےں انہوں نے اجمل خٹک کےلئے جو کچھ کہا وہ ہزاروں الفاظ پر بھاری ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ خوشحال خان خٹک کی اولاد مےں اگر کسی نے ان کی روح کو راحت پہنچائی ہوگی تو وہ صرف اور صرف اجمل خٹک ہی ہو سکتے ہےں جن کی پوری زندگی ‘ محنت ‘ جدوجہد ‘ عزم و ہمت ‘ حوصلے‘ صبر‘ قناعت ‘ درویشی اور فقر سے عبارت تھی ۔ 15 ستمبر 1925 ءکو اکوڑہ خٹک مےں حکمت خان کے ہاں پیدا ہونے والے اس بچے نے انتہائی غربت مےں ابتدائی ماہ و سال گزارے اجمل خٹک سرکاری ملازمت اور ادب کے ساتھ ساتھ سیاست کے میدان مےں بھی سرگرم رہے ۔ انگریزوں کے دور سے ہی سامراجی نظام کے خلاف میدان مےں تھے ۔ ” ہندوستان چھوڑ دو“ تحریک مےں سرگرم رہے ۔ قیام پاکستان کے بعد یہ بھی خان قیوم کے عتاب کا شکار بنے رہے ۔ پہلی مرتبہ 1953 مےں یوں ان کی پہلی گرفتاری قیوم خان کے دور مےں عمل مےں آئی متحرک ترین سیاسی کارکن تھے چنانچہ جب ایوب خان کے دور مےں جب 1962 ءمےں ملک مےں پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات ہو رہے تھے تو اجمل خٹک نے خٹک نامہ مےں مراعات یافتہ خان اور سرکاری حمایت یافتہ امیدوار کے مقابلے مےں اپنا امیدوار کھڑا کیا اور اس کےلئے زبردست مہم چلائی اور مارشل لاءدور مےں سرکاری امیدوار کو بھاری اکثریت سے ناکام بنا کر ثابت کر دیا کہ وہ صرف ایک اچھے شاعر اور کامیاب صحافی ہی نہےں بلکہ مقابلے کی ہمت رکھنے والے سیاسی کارکن بھی ہےں بعد ازاں ان کو نیشنل عوامی پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنا دیاگیا ۔ یہ بہت اعزاز کی بات تھی کیونکہ نیپ مےں ان دنوں سردار عطاءاللہ خان مینگل‘ نواب خیر بخش خان مری‘ میر غوث بخش بزنجو‘ محمد افضل خان لالہ جیسی بڑی اور قد آور شخصیات موجود تھےں ۔ 1990 ءمےں انتخابات ہوئے تو اجمل خٹک اے این پی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے 19 جنوری 1991 ءکو اجمل خٹک اے این پی کے مرکزی صدر بن گئے اور پھر طویل عرصہ تک وہ اے این پی کی قیادت کرتے رہے ۔1994 ءمےں ان کو سینٹ کا رکن منتخب کر لیاگیا بھرپور ادبی‘ سیاسی‘ صحافتی اور سماجی زندگی گزارنے کے بعد 7 فروری 2010ءکو اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے ۔ وہ قومی اسمبلی سینٹ کے رکن بھی رہے ۔ حکمرانوں اور صاحب اختیار لوگوں سے قرب بھی رہا ۔ پارٹی صدارت بھی ملی ‘ مواقع اور گنجائش بھی بے شمار تھےں لیکن بیرون ملک تو کجا ملک مےں بھی کوئی اثاثہ نہےں بنایا۔ غیر ملکی بینکوں مےں تو دور کی بات ملک مےں بھی ایک واحد اکاﺅنٹ مجبوری کے عالم مےں پارلیمنٹ ہاﺅس کے بینک مےں کھلوانا پڑا کہ تنخواہ وہاں جمع ہوتی تھی ۔ رشتہ داروں کو منفعت بخش اداروں مےں کیا ملازمتےں دلواتے اپنے صاحبزادے ایمل خان کو جو پروفیشنل جرنلسٹ ہے کو کوئی ڈھنگ کی نوکری دلوانے مےں بھی ان کی کوئی سفارش نہےں تھی نہ کوئی کاروبار نہ زمینےں نہ جاگیر انتہائی سادہ زندگی گذاری مخالفین نے غداری کا الزام تو لگا دیا لیکن بد عنوانی کا الزام لگانے کی ہمت نہےں ہوئی زندگی بھر حق بات کا اظہار کرتے رہے اور اس سلسلے مےں کبھی کسی کی پرواہ نہےں کی ۔