قومی سطح پر ’مالیاتی نظم و ضبط‘ لاگو کرنے اور معیشت کو زیادہ سے زیادہ دستاویزی بنانے کےلئے حکومتی اقدامات اور فیصلوں کی زد میں ’انعامی بانڈ‘ بھی آئے ہیں۔ دسمبر 2020ءمیں 25 ہزار روپے مالیت کا انعامی بانڈ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ’قومی بچت مراکز (نیشنل سیونگ سنٹرز)‘ کے صارفین کو قریب چھ ماہ کا عرصہ دیا گیا کہ وہ اپنے انعامی بانڈز کے عوض مساوی نقد رقم لیں یا اِن بانڈز کے متبادل دیگر مالیت کے انعامی بانڈز سے حاصل کر لیں یا بانڈز کی مجموعی مالیت کے مساوی ’قومی بچت‘ کی کسی اسکیم میں سرمایہ کاری کریں۔ اِس مقصد کےلئے مختصر مدت کی سرمایہ کاری کے لئے ’سپیشل سیونگ سرٹیفیکٹ‘ اور طویل مدتی (عرصہ دس برس) کی سرمایہ کاری کےلئے ’ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹ خریدنے کی پیشکش کی گئی لیکن چونکہ انعامی بانڈز کے خریداروں کی اکثریت کم تعلیم یافتہ ہوتی ہے جن کےلئے پچیس ہزار روپے کا انعامی بانڈ ختم کرنا ’غیرمنطقی اقدام‘ ہے اور وہ اِس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ حکومت ایک مالیت کا انعامی بانڈ ختم کرکے دیگر مالیات کے انعامی بانڈز کو جاری رکھے ہوئے ہے‘ جن میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی جا رہی ہے تو مسئلہ انعامی بانڈز یا اِن میں سرمایہ کاری نہیں بلکہ عوام کو پہنچنے والا مالی فائدہ ہے‘ جسے ختم کر دیا گیا ہے۔پچیس ہزار روپے والے انعامی بانڈز کی قرعہ اندازی ’یکم فروری دوہزار اکیس‘ کے روز ہونا تھی لیکن انعامی بانڈز ختم ہونے کی وجہ سے یہ قرعہ اندازی نہیں کی گئی اور نیشنل سیونگ سنٹرز کے مراکز ایسے پریشان حال صارفین کی تسلی تشفی کروا رہے ہیں جن کے پاس لاکھوں روپے مالیت کے انعامی بانڈز تو موجود ہیں لیکن جب اُن سے اِس مالی حیثیت کا ’ذریعہ¿ آمدن‘ پوچھا جاتا ہے تو وہ اِسے سالہا سال کے دوران ہونے والی بچت قرار دیتے ہیں اور اِس جواب کی صورت اسٹام پیپر پر ’بیان حلفی‘ لکھوانا پڑتا ہے۔ ایک سو روپے کے سٹامپ پیپر پر بیان حلفی لکھوانے کا خرچ چارسو روپے آتا ہے۔ قومی بچت میں سرمایہ کاری کےلئے ’بیان حلفی‘ کی شرط اپنی جگہ اہم لیکن یہ عمل مشکل کی بجائے آسانی سے بھی سرانجام پا سکتا تھا اور بچت مراکز ہی میں بیان حلفی فراہم ہو سکتے تھے۔ عجب ہے کہ قومی فیصلہ سازی میں عوام کی مشکلات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا اور قواعد و ضوابط میں بیک جنبش قلم تبدیلی کر دی جاتی ہے۔ طرز حکمرانی ایسی سوچ بچارکا مجموعہ ہوتی ہے جس میں نظم وضبط جیسے ہدف کے حصول کے ساتھ عام آدمی (ہم عوام) کے لئے سہولت زیادہ لیکن خرچ کم سے کم رہے۔شاعر نشتر خانقاہی کا شعر انعامی بانڈز پر صادق آتا ہے کہ ”مری قیمت کو سنتے ہیں تو گاہگ لوٹ جاتے ہیں .... بہت کمیاب ہو جو شے وہ ہوتی ہے گراں اکثر۔“ پچیس ہزار روپے والے انعامی بانڈ کا پہلا انعام 3 کروڑ (30 ملین) روپے ایک صارف کےلئے‘ دوسرا انعام ایک کروڑ (10ملین) روپے 10 شراکت داروں کےلئے جبکہ 700 صارفین کےلئے تیسرے انعام کی مالیت 3 لاکھ روپے مقرر تھی۔ انعامی بانڈ کا بنیادی مقصد ’قومی بچت‘ کو فروغ دینا ہے اور عوام کےلئے کم مالیت کی سرمایہ کاری ممکن بنانا ہوتا ہے۔ حکومت مختلف قسم کے انعامی بانڈز جاری کرتی ہے جن کی مالیت کے لحاظ سے 8 اقسام ہیں۔ سب سے کم 100 روپے جبکہ سب سے زیادہ مالیت کا انعامی بانڈ 40 ہزار روپے کا ہے اور یہ بانڈز کسی بھی بینک یا سٹیٹ بینک کی شاخ یا قومی بچت کے ملک بھر میں 376 مراکز سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ انعامی بانڈز میں سرمایہ کاری اِس قدر عام اور مرغوب ہے کہ انعامی بانڈز بینکوں یا قومی بچت سے مراکز سے حسب سہولت و طلب نہیں ملتے جبکہ فٹ پاتھوں اور ضرب صرافہ مارکیٹ میں ’زیادہ قیمت‘ پر خریدے جا سکتے ہیں۔ اصولاً بینکوں اور قومی بچت مراکز کے علاوہ انعامی بانڈز کی (سرعام) خریدوفروخت نہیں ہونی چاہئے لیکن اِس منظم دھندے کو بدعنوانی کے زمرے میں شمار نہیں کیا جاتا اور یوں انعامی بانڈز جو کہ چھوٹے پیمانے پر سرمایہ کاری کےلئے متعارف کروائے گئے تھے ’بڑی سرمایہ کاری‘ اور ’مالی بدعنوانی‘ کا ذریعہ بن گئے ہیں اور اِس خرابی کےلئے بھی ذمہ دار قومی فیصلہ ساز ہی ہیں جنہیں شروع دن سے انعامی بانڈز کو کسی شخص کے نام اور اُس کے قومی شناختی کارڈ نمبر سے متصل کر دینا چاہئے تھا‘ پشاور میں سٹیٹ بینک کی عمارت کے باہر درجنوں کی تعداد میں ایسے افراد گھومتے تھے جو بانڈز کے انعام یافتگان کو زیادہ منافع کی لالچ دے کر اُن سے انعامی بانڈ خرید لیتے۔ یہ انعامی بانڈز کو بعدازاں بلیک منی رکھنے والے اپنے اثاثہ جات کی مالیت کے ساتھ جوڑ دیتے‘ جس پر اُنہیں ٹیکس بھی ادا نہیں کرنا پڑتا تھا اور یوں ہر انعامی بانڈ ناجائز دولت کو جائز بنانے کا ذریعہ بن گئے اور یہ دھندا آج بھی جاری ہے۔ اگر قومی فیصلہ ساز عالمی اداروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی بجائے حقیقی و سخت گیر مالی نظم و ضبط لاگو کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں انعامی بانڈز کے نمبروں کی فروخت‘ سٹہ‘ جوا اور انعام یافتگان کے علاوہ اِس کی غیرقانونی طور پر ملکیت حاصل کرنے جیسی (سرعام) بے قاعدگیوں کی روک تھام کرنا ہوگی۔