امریکہ کے سیاسی فیصلہ سازوں نے تجویز کیا ہے کہ افغان طالبان سے ہوئے معاہدے (29 فروری2020ئ) پر نظرثانی کی جائے جو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ہوا تھا باالخصوص معاہدے کی نہایت ہی اہم و مرکزی شق جس میں افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ءجو کہ ’یکم مئی دوہزاراکیس‘ تک مکمل ہونا ہے اِس تاریخ میں توسیع کی جائے۔ اگرچہ قانون ساز کانگریس کی جانب سے یہ نہیں کہا گیا کہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا ءنہیں ہونا چاہئے لیکن سینیٹ اراکین چاہتے ہیں کہ افغانستان سے متعلق حکمت عملی پر جلدبازی دکھانے کی بجائے افغان طالبان سے ہوئے اُس معاہدے کا ازسرنو جائزہ لیا جائے جس سے متعلق افغان حکومت بھی تحفظات رکھتی ہے اور امریکہ طالبان معاہدے کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہوئے ہیں جو اِس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سابق امریکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کی قسمت کا فیصلہ جلدبازی میں کیا تھا۔ امریکہ چاہتا تو افغان طالبان کو معاہدہ کئے بغیر اور سفارتی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے بذریعہ اتحادی عرب ممالک بشمول پاکستان اِس بات کی یقین دہانی کروا سکتا تھا کہ اگر وہ افغان حکومت سے مذاکرات کریں تو بعدازاں امریکہ بھی اُس معاہدے کو تسلیم کر لے گا اور دونوں فریق (افغان حکومت اور طالبان) قیام امن کے لئے مذاکرات کے بعد جس نتیجے پر بھی پہنچیں گے‘ امریکہ اُس کی تائید و حمایت کرنے کا پابند ہوگا لیکن امریکہ کی جانب سے ایک ایسا تاثر دیا گیا کہ وہ افغانستان کی داخلی صورتحال میں ایسے فیصلے کرنے کا اختیار اور طاقت رکھتا ہے‘ جو افغان حکومت اور عوام کے لئے یکساں قابل قبول ہوں گے۔ امریکہ اِسی خام خیالی کے باعث اُس اہم معاہدے کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے جس کے بعد افغان خانہ جنگی ختم ہونے کا امکان پیدا ہوا اور یہ امکان اب بھی موجود ہے تاہم افغان طالبان کی جانب سے ایک بیان (پانچ فروری دوہزاراکیس) سامنے آیا ہے جس میں اُنہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ نے 29 فروری کے مذکورہ ’امن معاہدے‘ پر نظرثانی یا کسی بھی شق پر عمل درآمد میں حیل و حجت سے کام لیا تو اُس معاہدے کو کالعدم تصور کیا جائے گا اور اَفغانستان میں امریکی مفادات و تنصیبات پر حملوں کا نیا سلسلہ (جسے پہلے سے زیادہ شدید بتایا گیا ہے) شروع کیا جائے گا یوں جنوب ایشیا کے خطے میں ’امن کی آشا (اُمید)‘ دم توڑتی نظر آ رہی ہے۔افغانستان اور جنوب ایشیائی خطے میں امریکی مفادات کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اور چین کی توسیعی حکمت عملی بنام ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں۔ 27جولائی 2020ءکے روز چین کے وزیرخارجہ وانگ اِی نے افغانستان‘ پاکستان اور نیپال کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کی تھی جس میں اگرچہ کورونا وبا ءکے تناظر میں چین کے تعاون کی پیشکش کی گئی لیکن اِس کانفرنس میں ایک ایسی تجارتی راہداری کے قیام کی تجویز بھی دی گئی جس کے تحت یہ ممالک سازوسامان کی تیزرفتار نقل و حمل کے لئے ’گرین کوریڈور‘ بنائیں گے اور ’سی پیک‘ کے افغانستان تک پھیلاو¿ کے لئے ’ٹرانس ہمالین کوریڈور‘ بنانے کی تجویز دی گئی۔ چین کی جانب سے افغانستان اور نیپال کو دعوت دی گئی کہ وہ پاکستان کی طرح چین سے اپنی قربت میں اضافہ کرے اور پاکستان کے نقش قدم پر چلے۔ ظاہر ہے کہ اِس قسم کی خواہشات اور منصوبہ بندی امریکہ کے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتیں جو خطے میں اپنا اثرورسوخ داو¿ پر لگا ہوا دیکھ رہا ہے اور باالخصوص گزشتہ پچاس برس میں کی گئی وہ تمام سرمایہ کاری بھی ڈوبتی نظر آ رہی ہے جس کا آغاز سرد جنگ کے دوران ہوا اور اُس کے اختتام کے بعد سے تاحال جاری ہے۔ افغانستان میں امریکی افواج اور فوجی اڈوں کی موجودگی افغانستان کی مبینہ و ظاہری داخلی سلامتی کے نکتہ¿ نظر سے ضروری سمجھی جاتی ہے بلکہ واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے فیصلہ ساز اِسے ناگزیر سمجھتے ہیں تاکہ اُن کا فوجی دباو¿ برقرار رہے ‘بنیادی طور پر امریکہ کے اعصاب پر چین سوار ہے جس کے توسیع پسندانہ عزائم (بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو اور سی پیک) امریکہ کے لئے دردسر ہیں اور توقع تھی کہ کورونا وبا کی وجہ سے مذکورہ حکمت عملیوں کے تحت ترقیاتی منصوبے کھٹائی میں پڑ جائیں گے لیکن اگرچہ ’بیلٹ اینڈ روڈ انشی ایٹو‘ اُور ’سی پیک‘ کے جاری منصوبوں پر کام کی رفتار کچھ سست ہوئی ہے لیکن یہ منصوبے اب بھی چین اور پاکستان کی ترجیحات کا حصہ ہیں‘ جنہیں مکمل اور فعال ہوتا دیکھنے کے لئے چین سے زیادہ پاکستان منتظر ہے اور ایک ایک دن گن رہا ہے۔طالبان کی نظر سے دیکھا جائے تو افغانستان میں امریکہ افواج کی موجودگی ہی پرتشدد واقعات کے لئے ذمہ دار ہے لیکن امریکہ اور اُس کے نکتہ¿ نظر سے اتفاق کرنے والے اِسے مختلف زوایہ¿ نگاہ سے دیکھتے ہیں جیسا کہ ’افغان سٹڈی گروپ‘ کی جانب سے (تین فروری) ایک رپورٹ منظرعام پر آئی جس میں کہا گیا کہ اگر (مئی دوہزاراکیس کے اختتام تک) افغانستان سے مزید افواج کا انخلا ءکیا گیا تو اِس سے اندیشہ ہے کہ خانہ جنگی کا ایک نیا دور شروع ہو اور یہ بھی خطرہ ہے کہ وہ القاعدہ جسے مبینہ طور پر ختم کرنے کے لئے نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ نے افغانستان پر فوج کشی کی تھی وہ پھر سے اُبھرے اور افغانستان میں ایسے شواہد سامنے آئے ہیں اور القاعدہ کی موجود حمایت کو دیکھتے ہوئے مبینہ دہشت گرد گروہ سر اُٹھا سکتا ہے لیکن طالبان اِس قسم کے کسی جواز‘ بہانے اور منطق کو ماننے کے لئے تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ فروری کو اپنی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے ایک بیان میں اُنہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اگر امریکہ 29 فروری2020ءکے معاہدے کی کسی ایک بھی شق پر عمل درآمد نہیں کرتا اور معاہدے کو یک طرفہ طور پر ختم کرتا ہے تو اِس کے نتیجے میں مزاحمت کا نیا دور پہلے سے زیادہ شدید ہوگا اُور اِس میں ہوئے جانی و مالی نقصانات کے لئے امریکہ کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہئے۔“ طالبان کی جانب سے اِس واضح پیغام سے ’افغان امن معاہدے‘ کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے جو پاکستان کی کوششوں سے ممکن ہوا تھا اُور اُس سے قبل افغان طالبان امریکہ سے ساتھ معاہدہ تو بہت دور کی بات رسمی ملاقات تک نہیں کرنا چاہتے تھے اُور امن مذاکرات کے لئے اُن کی پہلی شرط یہی تھی کہ امریکہ سمیت تمام غیرملکی افواج کا امریکہ سے انخلا ءہونا چاہئے جس کے بعد بات چیت ہو سکتی ہے۔