بلدیاتی انتخابات 

سپریم کورٹ آف پاکستان نے بلدیاتی انتخابات میں غیر ضروری تاخیر پر برہمی کا اظہار کیاتھا۔ عدالت عظمیٰ نے چاروں صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن سے اس حوالے سے وضاحت طلب کی تھی۔الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات سے متعلق کیس میں اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے جواب میں پنجاب، خیبرپختونخوا اور ملک بھر کے کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات کروانے سے متعلق  تاریخوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا موقف ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات مرحلہ وار ہوں گے، خیبر پختونخوا میں   پہلے مرحلے میں 8 اپریل 2021 ء کو بلدیاتی انتخابات ہوں گے،دوسرے مرحلے میں 29 مئی کو انتخابات ہوں گے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا اعلان 12 فروری اور دوسرے مرحلے کا 25 مارچ کو کیا جائیگا۔ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات تین مراحل میں ہوں گے، پہلے مرحلے میں 20 جون، دوسرے مرحلے میں 16 جولائی اور تیسرے مرحلے میں 8 اگست کو بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔ کنٹونمنٹ بورڈز میں بلدیاتی انتخابات 8 اپریل اور 29 مئی کو ہوں گے۔الیکشن کمیشن کے مطابق سندھ اور بلوچستان میں بلدیاتی انتخابات کروانے کا معاملہ 11 فروری تک ملتوی کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے چند روز قبل بلدیاتی انتخابات ستمبر میں کروانے کا اعلان کیاگیا تھا۔ تاہم صوبائی حکومت نے اب یہ موقف اختیار کیا ہے کہ کورونا وباء کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد مناسب نہیں ہوگا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا کی مہلک وباء پر ابھی قابو نہیں پایاجاسکا ہے۔ تاہم یہ بات اطمینان بخش ہے کہ چین سے کوروناکی ویکسین سائنوفارم پاکستان پہنچ چکی ہے امریکہ اور برطانیہ میں تیار ہونے والی ویکسین بھی اگلے مہینے پاکستان پہنچنے کا امکان ہے۔کورونا کی دوسری لہر کی شدت میں بھی بتدریج کمی آرہی ہے۔توقع ہے کہ اگلے چار پانچ مہینوں کے دوران کورونا کیسز کی تعداد میں خاطر خواہ کمی آئے گی۔ اور ستمبر تک صورتحال کافی بہتر ہوگی کورونا کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کا جواز قابل قبول نہیں ہے۔ ملک بھر میں جلسے، جلوس اور ریلیوں کے علاوہ کھیلوں کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں اگر کورونا ایس او پیز کی پابندی کرتے ہوئے انتخابات کا انعقاد کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔صوبائی حکومت کی طرف سے انتخابات میں تاخیر کی اصل وجہ کورونا نہیں، بلکہ بلدیاتی حد بندیوں کی تکمیل میں تاخیر ہے چند ہی اضلاع میں ضلع کونسل، تحصیل، نیبرہڈ اور ویلج کونسلوں کی حدبندیاں مکمل ہوپائی ہیں جبکہ 80فیصد اضلاع میں حدبندیوں کا کام شروع ہی نہیں ہوا۔ صوبے میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں بھی بلدیاتی حلقہ بندیوں کا کام ابھی ہونا باقی ہے۔صوبائی حکومت نے مروجہ بلدیاتی ڈھانچے میں بھی تبدیلیوں کا عندیہ دیا تھا اور ضلع کونسل ختم کرکے اضلاع میں صرف تحصیل اور ویلج کونسلیں جبکہ شہری علاقوں میں ٹاؤن اور نیبرہڈکونسلیں برقرار رکھنے کا اعلان کیاتھا۔ تاہم اس حوالے سے صوبائی حکومت نے مزید وضاحت نہیں کی۔بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی سے نچلی سطح پر شہری سہولیات کی فراہمی کا نظام ٹھپ ہوکر رہ گیا ہے۔جن میں نالیوں کی صفائی، گلیوں کی پختگی، صاف پانی کی فراہمی، قبرستانوں کی دیکھ بھال، جنازہ گاہوں کی تعمیر، صحت و صفائی کے انتظامات، اسناد کی تصدیق سمیت محلے اور یونین کونسل کی سطح کے چھوٹے چھوٹے کام شامل ہیں یہ کام اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹروں کے کرنے کے نہیں ہیں اور نہ ہی ان تک عام شہریوں کی رسائی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے نچلی سطح پر عوام کے مسائل کے حل کے حوالے سے صوبائی اور قومی اسمبلی سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستان میں منتخب جمہوری حکومتوں کے ادوار میں بلدیاتی اداروں کو ہمیشہ نظر انداز کیاجاتا رہا۔ جمہوریت کی نرسری کہلانے والے اداروں کے ساتھ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے امتیازی سلوک سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں اور منتخب حکومتیں جمہوریت پر کس حد تک یقین رکھتی ہیں۔