کورونا وبا سے نمٹنے کی حکمت عملیوں میں پاکستان ایسی انوکھی مثال کے طور پر اُبھر کر سامنے آیاہے جس نے متاثرہ عوام کی بجائے کاروباری شعبے کو زیادہ مراعات‘ چھوٹ اور امداد دی ہے۔ اِس سلسلے میں جاری ہوئی ایک جائزہ رپورٹ میں مختلف ممالک (امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ بھارت‘ برازیل اور انڈونیشیا) کا موازنہ کرتے ہوئے اُن اقدامات کو بطور مثال فہرست کیا گیا ہے جو عام آدمی کو سہارا دینے سے متعلق تھے لیکن پاکستان میں عام آدمی سے زیادہ سرمایہ داروں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا۔ اگرچہ اِن اعدادوشمار میں کورونا سے ہونے والی اموات کو شمار نہیں کیا گیا کہ سرمایہ داروں اور غریبوں کی اموات کا تناسب کیا رہا لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ سب سے زیادہ کورونا متاثرین اور کورونا سے زیادہ اموات کا تعلق بھی غریب طبقات ہی سے ہے جنہیں نہ تو کورونا ٹیسٹنگ کی سہولت میسر رہی اور نہ دور افتادہ علاقوں میں علاج معالجہ یا شہری مراکز تک اُنہیں رسائی حاصل تھی۔ کورونا وبا کے اقتصادی طور پر منفی اثرات کم کرنے اور معاشی بحالی کیلئے حکومت کی جانب سے قریب 3 کھرب روپے امداد فراہم کی جا چکی ہے جس کا 6.6فیصد یعنی 200ارب روپے غریبوں میں براہ راست مالی امداد کے طور پر تقسیم ہوئے ہیں جبکہ باقی ماندہ 93.4فیصد امدادی فوائد نجی کاروباری اور صنعتی شعبے کو دیئے گئے ہیں لیکن اِس امداد کو ملازمتوں سے مشروط نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے سرمایہ دار کاروباری و صنعتی طبقات کا نقصان قابل برداشت بنا دیا گیا لیکن عام آدمی کی معاشی مشکلات کے حل میں خاطرخواہ دلچسپی نہیں لی گئی اور نہ ہی خاطرخواہ سرمایہ کاری کی گئی ہے۔کورونا سے ہونے والی اموات کی شرح پاکستان میں کم ہونے کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اِس مرض سے زیادہ تر اموات ستر سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کی ہوتی ہیں جبکہ پاکستان میں غریبوں کی اکثریت پینسٹھ سے ستر سال کے درمیان مختلف وجوہات کی بنا پر مر جاتے ہیں کہ اُنہیں خوراک اور علاج معالجے کی خاطرخواہ معیاری سہولیات میسر نہیں ہوتیں اور یہی وہ بنیادی سبب ہے کہ جس کی وجہ سے پاکستان میں کورونا وبا سے اموات کی شرح دیگر ممالک سے کم رہی ہے۔ وفاقی ادارہئ شماریات نے کورونا وبا کے اثرات کی ذیل میں بیان کیا ہے کہ مختلف اوقات میں عائد کی جانے والی پابندیوں کے باعث عام لوگوں کی زندگیوں میں مشکلات پیدا ہوئیں۔ اُن کے روزگار متاثر ہوئے اور لاک ڈاؤنز کی وجہ سے عارضی دیہاڑی دار مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جنہیں حکومتی ادارے غریبوں میں شمار نہیں کرتے اور اُنہیں مالی امداد بھی نہیں دی گئی۔ کورونا (وبا) اور غیرکورونا (عمومی) صورتحال میں کسی نہ کسی صورت متاثر ہونے والے ’مزدور و محنت کش طبقات‘ تک حکومت کی امداد (ریلیف) اس لئے بھی نہیں پہنچتا کیونکہ حکومت کے پاس اعدادوشمار اور فعال کوائف (ایکٹو ڈیٹا) کی کمی ہے۔عدم مساوات معاشی ترقی کا ضمنی نتیجہ ہے۔ کورونا وبا نے عام آدمی کی معاش اور معاشی سرگرمیوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ سب سے زیادہ منفی اثر دیہی علاقوں اور بالخصوص اُن علاقوں میں ہوا ہے جہاں کی معیشت زراعت پر منحصر نہیں اور ایسے علاقوں میں عدم مساوات میں اضافہ ہوا ہے‘ جس کی حکومت نے معاشرتی شعبے کی کوریج کو وسیع کرتے ہوئے تلافی کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کی جانب سے حال ہی میں امدادی بحالی کی کوششیں اِس لئے ناکافی ہیں کہ اِن سے امیروں اور غریبوں کے درمیان فرق کم ہونا ممکن نہیں البتہ تعمیراتی شعبے میں کاروباری مصروفیات بڑھنے سے روایتی طور پر عدم مساوات کے درمیان فرق کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ کورونا وبا کے عرصے میں بڑھنے والی غربت اور عدم مساوات صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کیلئے تشویش کا باعث ہیں۔ تاہم امکان ہے کہ اِس کے پاکستان پر اثرات نسبتاً کم رہیں۔ لاک ڈاؤن کے دوران ملازمین کو برقرار رکھنے کا وعدہ کرنے والی کمپنیوں کیلئے اجرت بل کی حمایت میں وضع کئے گئے کم شرح سود پر قرضہ جات کے منصوبے اپنی جگہ اہم ہیں‘ جن میں اضافہ اور جن کے طریقہئ کار میں اُن طبقات کو بھی شامل کرنا چاہئے جن کے کوائف انتہائی غریبوں کے طور پر تو درج نہیں لیکن غیرمستقل روزگار کی وجہ سے وہ بھی کورونا متاثرین میں شامل ہیں۔