جمہوریت کا فقدان؟۔۔

 چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے سے متعلق حکومتی درخواست کی سماعت کے دوران ریماکس دئےے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے اندربھی جمہوریت ہونی چاہئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی تقریبا ًساری جماعتیں ون مین پارٹی ہیں۔ لوگ اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ دےکر تسلیم بھی کرتے ہیں۔ ضمیر کے خلا ف ووٹ دینے والے پارٹی سربراہ کے احکامات کے پابند ہوتے ہیں اور پارٹی سربراہ سب کی رائے لےکرفیصلہ کرے تو ہی بہتر ہوگا۔ فیصلے سے پہلے رکن اسمبلی کو پارٹی میں رائے دینی چاہئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں سیاسی جماعتیں پارٹی سربراہان کے نام سے چلتی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریماکس دئیے کہ آئینی طورپرسیاسی جماعتوں میں چیک اینڈبیلنس ہونا چاہئے، جس کی اسمبلی میں اکثریت ہو۔اسے سینیٹ میں اکثریت سے روکنا تباہ کن ہوگا۔ لوگ رکن پارلیمنٹ کو ووٹ اس کی پارٹی وابستگی کی وجہ سے دیتے ہیں اور پارٹی کے خلاف ووٹ دینا عوامی اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہوگا۔اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اعتراض کیا جارہا ہے کہ سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی بات کرنے والوں کی نیت میں کھوٹ ہے ۔انہیں اپنی پارٹی کے اراکین پر اعتماد نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ انہیں پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے سے روکنے کے لئے سینٹ انتخابات کے قوانین میں ترمیم کی جارہی ہے۔حکومتی اتحاد اور اپوزیشن میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کا ماننا ہے کہ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ ہوتی ہے اراکین اسمبلی کی بولیاں لگتی ہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان طے پانے والے میثاق جمہوریت میں بھی سینٹ کے انتخابات خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کی شق شامل ہیں۔سینٹ انتخابات میں اراکین اسمبلی کی خرید و فروخت کوئی نئی بات نہیں۔ جب سے پارلیمنٹ کا ایوان بالا وجود میں آیا ہے۔تب سے ووٹوں کی خریدوفروخت جاری ہے۔ ووٹ خریدنے کا دھندہ صرف سینٹ انتخابات تک ہی محدود نہیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات یہاں تک کہ بلدیاتی انتخابات میں بھی ووٹ خریدے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے حالیہ سینٹ انتخابات کے لئے اخراجات کی حد پندرہ لاکھ مقرر کی ہے۔ ممبران اپنے گوشواروں میں پندرہ لاکھ سے بھی کم ظاہر کرتے ہیں جبکہ اخراجات کروڑوں میں ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس ملک کی سیاست قیادت کو آئینہ دکھانے کے مترادف ہے۔ جب تک جمہوری پارٹیوں میں جمہوریت نہیں آئے گی تب تک ملک میں حقیقی جمہوریت قائم نہیں ہوسکتی۔اور حقیقی جمہوریت کے قیام تک عوام کے مسائل بھی حل نہیں ہوسکتے۔کیونکہ قومی ایوانوں میں بیٹھے امیر زادوں، جاگیرداروں، کارخانہ داروں اور صنعت کاروں کو عام آدمی کے مسائل کا پتہ ہی نہیں ہے۔سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے کا بل پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کے جمہوری رویوں کے لئے ٹیسٹ کیس ہے۔ پوری قوم کی نظریں اس بل کے نتیجے پر مرکوز ہیں اگر ذاتی عناد کی بنیاد پر سیاسی جماعتوں نے بل کی مخالفت کردی تو یہ فیصلہ ان کے سیاسی مستقبل پر منفی اثرات مرتب کرسکتا ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں سے عوام جو توقعات وابستہ کرتے ہیں ان پر پورا اترنا ان کی ذمہ داری ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مہنگائی اور دیگر مسائل سے نبردآزما عام شہری یہی چاہتا ہے کہ اس کی زندگی سہل ہو۔ مسائل و مشکلات سے اسے چھٹکارا ملے ایسے میں سیاسی جماعتوں کی توجہ اگر عام آدمی کے مسائل کی بجائے سیاست برائے سیاست پر مرکوز رہے تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ مسائل ومشکلات بڑھتے جائیںگے۔