روح ِجمہوریت۔۔۔۔

بلدیاتی انتخابات کا عمل کسی بھی جمہوریت کی مضبوطی و پائیداری کا ضامن ہونے کے علاوہ ایک ایسے نظام کی روح کہلاتا ہے جو عوام کے مسائل اُن کی دہلیز پر حل کرنے کی صلاحیت اور خوبی رکھتا ہے لیکن اِس کم خرچ طرز حکمرانی اور اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی اُس قدر آسان نہیں ہوتی جس قدر دکھائی اور سنائی دیتی ہے بالخصوص پاکستان جیسے معاشرے میں کہ جہاں سیاست کاروبار اور مفادات کے گرد گھومتی ہو اور جہاں سیاست موروثی شکل میں پائی جائے تو وہاں بلدیاتی طرزحکمرانی قائم کرنا آسان نہیں ہوتا جو کسی قوم کے نظم و ضبط کا بھی عمل ہے۔ بنیادی طور پر بلدیاتی ادارے عوام کی حکمرانی پر براہ راست عملداری کو یقینی بناتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی حکومتیں‘ خاص طور پر صوبائی سطح اور روایتی طور پر بلدیاتی انتخابات کرانے سے گریزاں رہتی ہیں اور مقامی حکومتوں کو نہ تو خاطرخواہ پھلنے پھولنے کے مواقع (ماحول) فراہم کرتی ہیں اور نہ ہی اُنہیں اپنے مالی معاملات اور وسائل میں خودمختار بناتی ہیں بلکہ بلدیاتی اداروں کو محتاج رکھا جاتا ہے اور یہی قضیہ ایک مرتبہ پھر پیدا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن خواہشمند ہے کہ بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا عمل جلد از جلد مکمل کر لیا جائے جس کے لئے منصوبہ بندی اور تیاری موجود ہے۔ ممکنہ طور پر بلدیاتی انتخابات تین مراحل میں انجام پائیں گے اور اِس بات کو ذہن میں رکھا گیا ہے کہ عام انتخابات کی نسبت بلدیاتی انتخابات میں دی گئی رائے (ووٹس) کی تعداد چار گنا زیادہ ہوگی لیکن بلدیاتی انتخابات کے بنا تاخیر انعقاد کے بارے میں تین صوبوں کے تحفظات سامنے آئے ہیں جو فوری بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے گریزاں ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کا کہنا ہے کہ جب تک سال 2017ءمیں کی گئی مردم شماری کا درست نتیجہ سامنے نہیں آتا‘ یا پھر دوبارہ مردم شماری نہیں کی جاتی جس پر سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کو اعتماد ہو اُس وقت تک بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بے سود اور ناممکن رہے گا۔ مردم شماری کا عمل سرانجام دیتے وقت صوبوں کی جانب سے تحفظات کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی وجہ سے تنازعات حل ہونے کی بجائے مردم شماری نے نئے تنازعات کو جنم دیا۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے بڑے صوبے پنجاب میں‘ نواز لیگی حکومت کے ذریعہ قائم بلدیاتی اداروں کا سابقہ نظام مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے اور اگر آئندہ انتخابات ممکن ہوئے تو یہ صوبہ تحریک انصاف کے ایک نئے نظام کے تحت انتخابات میں حصہ لے گا۔ اِسی طرح خیبر پختونخوا بلدیاتی انتخابات کے انعقاد پر رضامند ہے لیکن اِسے کورونا وبا کے ممکنہ پھیلاو¿ کی وجہ سے خدشات ہیں اور چاہتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے سفارش کردہ تین انتخابات کی بجائے ایک ہی مرحلے میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہو۔ اِس بارے میں ایک رائے عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کی بھی ہے جس کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات عوام کا حق ہیں اور تحریک انصاف کے پاس ایسا کوئی بھی اختیار نہیں کہ وہ اِن انتخابات کے انعقاد کو روکے یا مو¿خر رکھے۔ بنیادی بات یہ ہے اور ماضی کو ایک مرتبہ پھر دہرایا جا رہا ہے۔ صوبائی حکومتیں خوفزدہ ہیں کہ بلدیاتی اداروں کی موجودگی میں اُن کے اختیارات چھن جائیں گے لیکن محض اِن خدشات اور تحفظات کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات ملتوی نہیں کئے جانے چاہیئں بلکہ تمام فریقین مل بیٹھ کر (بات چیت کے ذریعے) اگر ایک دوسرے کے تحفظات دور کریں اور مشاورتی عمل جو کہ جمہوریت کا خاصہ ہے سے رجوع کیا جائے تو نہ صرف بلدیاتی انتخابات بلکہ دیگر کئی قومی مسائل جیسا کہ کالا باغ ڈیم منصوبے کی تعمیر سے جڑے اعتراضات کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے جو کہ پاکستان کی ضرورت ہے۔بلدیاتی انتخابات سالہا سال کی تاخیر کے بعد سالہا سال تاخیر کا شکار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور ایک مرتبہ پھر غیر یقینی صورتحال حاوی ہے۔ اِس صورتحال کا اگر حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو یہ عوام کے ساتھ انصاف نہیں‘ جن کا بنیادی حق ہے کہ اُنہیں جمہوریت سے مستفید کیا جائے۔ اصولی طور پر سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی طرز حکمرانی کا سب سے زیادہ حامی و قائل ہونا چاہئے اور انہیں متعلقہ حکام کے ساتھ مل کر ”عملی فارمولہ“ تیار کرنا چاہئے کیونکہ مردم شماری‘ خانہ شماری‘ انتخابی حلقہ بندیاں اور اِن سے جڑے ضمنی موضوعات اتنے اہم نہیں کہ اُن کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات ہی کو مو¿خر کر دیا جائے۔ جمہوریت پر یقین رکھنے والوں کو اپنے قول ہی سے نہیں بلکہ اپنے فعل سے بھی جمہوریت پر یقین کا اظہار کرنا چاہئے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ مردم شماری کے نتائج کو جواز بنا کر بلدیاتی انتخابات کو مو¿خر کیا جارہا ہے بلکہ ایسا ماضی میں بھی ہو چکا ہے اور صوبے 1998ءکی مردم شماری کی بنیاد پر بھی انتخابات کرانے سے انکار کر چکے ہیں‘ جس کے لئے درمیانی راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس محمود باقر پر مشتمل سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے واضح کر رکھا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں ناکامی آئینی خلاف ورزی ہے اور یہی وجہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے بھی بلدیاتی انتخابات میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔