مہربانی آپ کی‘ نامہربانی آپ کی!۔۔۔۔

اہل دل کے لئے ”موت کا بھی علاج ہو شاید .... زندگی کا کوئی علاج نہیں“ اور یہی وہ مرحلہ¿ فکر ہے کہ جہاں خیبرپختونخوا میں علاج معالجے کی سہولیات کے غیرمعیاری اور ناکافی ہونے کے بارے میں پائے جانے والے عمومی تاثر (رائے) کی تصدیق ’کورونا وبا‘ کے بعد ایک ایسی حقیقت کی صورت آشکار ہوئی ہے کہ جس پر یقین نہیں آ رہا۔ اَلمیہ ہے کہ سالانہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود صوبائی فیصلہ سازوں نے اِس بات کو ضروری ہی نہیں سمجھا کہ خیبرپختونخوا کے کسی بھی سرکاری ہسپتال یا اِس سے متصل ’آکسیجن بنانے کی سہولت‘ نہیں بلائی گئی اوریہی وجہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی جملہ سرکاری علاج گاہوں میں آکسیجن کی ضرورت نجی اِداروں سے پوری کی جا رہی ہے۔ حیرت انگیز اَمر یہ ہے کہ سرکاری ہسپتالوں سے ریٹائر ہونے والے کئی ڈاکٹر جب نجی ہسپتالوں سے وابستہ ہوتے ہیں تو وہاں آکسیجن کےلئے پلانٹس نصب کرتے ہیں کیونکہ آکسیجن کی فراہمی صرف کورونا ہی نہیں بلکہ درجنوں اقسام کی بیماریوں میں ضرورت پڑتی ہے اور بالخصوص جراحت کا عمل مکمل ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ مصنوعی آلات ِتنفس کے ذریعے مریض کی یہ سب سے بنیادی ضرورت ہوتی ہے۔دسمبر دوہزاربیس میں جب پشاور کے ایک ہسپتال میں چھ مریضوں کی موت آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے ہوئی تو اُمید تھی کہ آکسیجن کی فراہمی میں غفلت کے مرتکب ملازمین‘ آکسیجن فراہم کرنے والے نجی ٹھیکیدار اور ہسپتال کے فیصلہ سازوں کے خلاف کاروائی ہوگی کیونکہ زیرعلاج چھ مریضوں کی اموات علاج معالجے اور مریضوں کی نگہداشت میں غفلت کا منہ بولتا ثبوت تھا لیکن افسوس کہ ہسپتال کے بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے والوں کی اموات بھی پراَثر ثابت نہ ہوئیں۔ بے حسی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو کم سے کم خیبرٹیچنگ ہی میں آکسیجن فراہمی کےلئے پلانٹ نصب ہو چکا ہوتا۔ مذکورہ سانحے کے بعد خیبر ٹیچنگ میں آکسیجن ذخیرہ کرنے کی استعداد میں اضافہ کیا گیا۔ مزید افرادی قوت تعینات کر دی گئی لیکن آکسیجن کی فراہمی ماضی کی طرح لاہور (صوبہ پنجاب) ہی سے جاری ہے۔ اصل ضرورت مقامی سطح پر آکسیجن کو قابل استعمال حالت میں فراہم کرنا ہے جس سے مسلسل غفلت مجرمانہ فعل ہے۔ تصور کریں کہ پشاور کا صرف ایک سرکاری ہسپتال ایسا ہے جو ہر سال آکسیجن کی خریداری پر 2 کروڑ روپے خرچ کرتا ہے اور اِس تناسب سے کم و بیش پانچ کروڑ روپے مالیت کی آکسیجن خریدی جاتی ہے جو ضرورت کےلئے ناکافی ہونے کے علاوہ معیار کے لحاظ سے بھی تسلی بخش نہیں کیونکہ کورونا مریضوں کو جس دباو¿ سے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے اُس کےلئے موجودہ نظام کی ’اپ گریڈیشن‘ بھی ضروری ہے اور یہ صرف اُسی صورت ممکن ہے جبکہ ہسپتالوں میں چھوٹے بڑے پیمانے پر آکسیجن پلانٹس (PSA Plants) نصب ہوں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہسپتال کو عمارت اور طبی و معاون طبی عملے کی تعداد کی صورت نہیں دیکھا جانا چاہئے جبکہ وہاں علاج معالجے کی سہولیات (مقدار و معیار) پر سمجھوتہ کیا جارہا ہو۔ سردست کورونا وبا سے متاثرہ مریضوں میں سے 20 فیصد کو فوری اور کئی ہفتوں تک زیرعلاج رہنے کی صورت آکسیجن کی مسلسل فراہمی درکار ہوتی ہے۔ یہ علاج گاہوں کے بنیادی کردار اور افادیت کا معاملہ ہے اور یہاں غفلت (غلطی) کی گنجائش اِس لئے بھی نہیں کیونکہ یہ زندگی اور موت کا معاملہ بھی ہے۔ ”زندگی کہتے ہیں کس کو موت کس کا نام ہے .... مہربانی آپ کی‘ نامہربانی آپ کی (رشید لکھنوی)“