پشاور میں ٹریفک کے نگران (چیف ٹریفک آفیسر) عباس مجید مروت نے رنگ روڈ اور اطراف کی سڑکوں پر قائم تجاوزات کے ازخود خاتمے کے لئے 2 روز کی مہلت دیتے ہوئے ’گرینڈ آپریشن‘ کی دھمکی دی اور پھر یہ مہلت گیارہ فروری تک ختم ہونے کے باوجود بھی نہ تو تجاوزات ٹس سے مس ہوئیں اور نہ ہی حسب اعلان تجاوزات کے خلاف ’گرینڈ آپریشن‘ شروع کیا گیا۔ سرکاری اداروں کے اہلکار جب کبھی بھی تجاوزات کے خلاف کاروائی کرتے ہیں تو حیرت انگیز طور پر دکانداروں کو پہلے ہی سے علم ہوجاتا ہے جبکہ تجاوزات قائم کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ایسی بھی ہوتی ہے چند روز تعطیل کے بعد دوبارہ اپنی حدود سے تجاوز کر لیتے ہیں اور یوں چپے چپے پر قائم تجاوزات کا خاتمہ باوجود خلوص و کوشش اور خواہشات بھی عملاً ممکن نہیں ہوتا۔ اِس لمحہ¿ فکر پر پہلی بات تو یہ ہے کہ تجاوزات ختم کرنے کےلئے مہلت دو دن کی نہیں بلکہ چند گھنٹوں کی بھی کافی ہے اور بنا اعلان بھاری مشینری اگر کسی علاقے میں پہنچ جائے تو ’گرینڈ آپریشن‘ کے دھمکی سے یہ حربہ زیادہ کارگر ثابت ہوگا جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ تجاوزات ازخود ختم نہیں ہوں گی جیسا کہ سمجھا جا رہا ہے بلکہ اِن کے پشت پناہی ٹریفک پولیس اُور بلدیہ کے وہی اِہلکار کر رہے ہیں جو ’چیف ٹریفک آفیسر‘ کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں اُور اِن سب کا دانہ پانی اِن تجاوزات سے جڑا ہوا ہے بصورت دیگر کسی بھی تھانے کی حدود میں تجاوزات قائم ہونے کا سوال (امکان) ہی نہیں ہو سکتا۔کیا تجاوزات صرف رنگ روڈ اور اِس کے اَطراف (چغل پورہ سے حیات آباد اور ملحقہ علاقوں بالخصوص سیٹھی ٹاو¿ن‘ دلہ زاک روڈ‘ ہزارخوانی و بڈھ بیر) میں قائم ہیں؟ برسرزمین صورتحال یہ ہے کہ پشاور کا کوئی ایک بھی بازار تجاوزات سے پاک نہیں جو شہری زندگی کا حسن ماند پڑنے کا سبب ہے۔ اِس پورے منظرنامے کو ایک الگ زاویئے سے دیکھنے اور پشاور کی خوبصورتی و بصد احترام شہری زندگی کی خوبیاں بحال کرنے کے بارے ترجیحات طے ہونی چاہیئں کیونکہ تجاوزات کے خلاف ٹریفک پولیس‘ پولیس اور بلدیہ و ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی الگ الگ کاروائیوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ پشاور کے مسائل میں تجاوزات واحد نہیں لیکن سرفہرست ضرور ہے اُور اگر اِس ایک مسئلے کا پائیدار حل دریافت کر لیا گیا تو دیگر تمام مسائل خودبخود حل ہوتے چلے جائیں گے رنگ روڈ پشاور شہر کی سڑکوں پر ٹریفک کے دباو¿ کو کم کرنے کے لئے بنایا گیا تھا لیکن اِس کی تکمیل و توسیع کا عمل مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ اِس شاہراہ کا سرکاری دستاویزی نام ”خیبرپختونخوا ہائی وے نمبر 13“ ہے جس کا 35 کلومیٹر حصہ مکمل اور زیراستعمال ہے جبکہ اِس کا شمالی حصہ زیرتعمیر ہے جس کی تکمیل کے بعد یہ 43 کلومیٹر (27 میل) رقبے کا اِحاطہ کرے گی۔ پشاور کی ضرورت جہاں رنگ روڈ سے تجاوزات کے خاتمے کی ہے وہیں اِس اہم منصوبے کی تکمیل اور اِس کے اطراف میں ترقیاتی کاموں کی بھی ضرورت ہے پشاور کی خوبصورتی اور بحالی کے لئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی خصوصی دلچسپی سے ایک حکمت عملی ’جنوری 2020ئ‘ میں متعارف کروائی گئی جس کے تحت ترقی و توسیع کے متعدد منصوبوں پر کام جاری ہے لیکن ترجیحات کا تعین نہ ہونے کے سبب نہ تو ’رنگ روڈ‘ کی تکمیل‘ توسیع اور مرمت ہو سکی ہے اور نہ ہی اِس اور ملحقہ شاہراو¿ں سے تجاوزات ختم ہو سکی ہیں جس سے نمٹنے کی بجائے سخت اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے ۔