زمانہ تیزی سے بدل گیاہے اب وہ وقت نہیں رہاکہ خیراتی اداروں کو دی جانے والی رقم کے ذرائع کی طرف سے آنکھیں بندکرکے رکھی جائیں کیونکہ عالمی سطح پر اس حوالہ سے حساسیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکاہے چنانچہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے دباؤ کے نتیجہ میں خیبر پختونخوا حکومت نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے ترمیمی قانونی مسودے کی منظوری دیدی ہے اضلا ع میں خیراتی اداروں کی کڑی نگرانی کے لئے ڈپٹی کمشنر کی سربراہی میں انٹیلی جنس رابطہ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائیگا جو اداروں کی سرگرمیوں کو مانیٹر کرے گی قانون پر عمل درآمد نہ کرنے پر 10 لاکھ روپے جرمانہ اور 6 ماہ قید کی سزا تجویز کی گئی ہے جبکہ قانون کے مطابق ڈائریکٹر کے پاس کسی بھی ادارے کی جانب سے معلومات فراہم نہ کرنے پر اس ادارے کے تمام اکاؤنٹس منجمد کرکے ان کے اثاثے حکومتی تحویل میں لینے کا اختیار ہوگا‘خیبر پختونخوا ٹرسٹ کے ترمیمی بل کے مسودے 2021ء کے تحت انسداد منی لانڈرنگ ایکٹ 2010ء میں ریگولیٹری کی جو تشریح کی گئی ہے وہی ٹرسٹ ایکٹ کے تحت بھی رقوم کی آمد واخراج کو کنٹرول کریگی مذکورہ قانون کے مطابق سپیشلائزڈ ٹرسٹ کے معاملات بھی کنٹرول کئے جائیں گے جس کی رجسٹریشن صوبائی حکومت کے پاس ہو یا وفاق کے پاس ہو کسی بھی خیراتی ادارے کو فعال بنانے کی اجازت رجسٹریشن سے مشروط قرار دی گئی ہے‘رجسٹریشن محکمہ انڈسٹری اینڈ کامرس کے ساتھ کی جائے گی‘رجسٹریشن کے وقت ادارے کے اغراض ومقاصد، مالک اور مستفید ہونے والوں کی تمام تفصیلات لازمی جمع کرانی ہوں گی‘محکمہ انڈسٹری اینڈ کامرس کے ڈائریکٹریٹ رجسٹریشن عمل کی نگرانی کرے گی اور ڈائریکٹر کے پاس اختیار ہوگا کہ وہ رجسٹریشن کے لئے جمع درخواست کی چھان بین یا تصدیق کرسکے‘رجسٹریشن ایکٹ1908 ء کے تحت تمام منقولہ اور غیرمنقولہ جائیداد کی رجسٹریشن بھی لازمی قرار دی گئی ہے‘قانونی کاروائی پوری ہونے کے بعد ڈائریکٹر ادارے کو رجسٹرڈ کرکے سرٹیفیکیٹ جاری کرے گا‘اگر تصدیقی عمل کے دوران کسی ادارے کی سرگرمیاں مشکوک ہوئیں تو ڈائریکٹران کی رجسٹریشن منسوخ کرسکے گا اور اس فرد کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے گی‘قانونی مسودے کے مطابق کسی کی جانب سے غلط بیانی کرنے یا معلومات کی عدم فراہمی پر انہیں 10 لاکھ روپے جرمانہ کیا جاسکے گا‘ڈائریکٹر یا اسسٹنٹ ڈائریکٹر کسی بھی وقت کسی بھی ادارے سے تفصیلات طلب کرنے کا مجاز ہوگا‘صوبائی حکومت نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لئے ترمیمی قانونی مسودے کی منظوری دے کر ایک مستحسن اقدام کیا ہے۔ ملک بھر میں فلاحی ادارے کام کررہے ہیں یہ جن مقاصد کے لئے قائم کئے گئے ہیں امرواقعہ یہ ہے کہ اس میں متعدد ناکام رہے ہیں اس سے ان کے ذاتی اور مالی مفادات تو پورے ہورہے ہیں جبکہ یہ اپنے مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہیں ان میں ملکی وغیر ملکی دونوں قسم کے ادارے شامل ہیں۔ کئی فلاحی اداروں میں بیوروکریٹس کے اہل خانہ یا رشتہ دار کام کررہے ہیں سچ یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت نے فلاحی اداروں کی اصلاح احوال کے لئے کام نہیں کیا جس کی وجہ سے پاکستان کی بد نامی ہورہی ہے‘رفاہی اداروں میں اچھے بھی ہیں اور ان کی کارکردگی اطمینان بخش ہے‘ان فلاحی اداروں کی نگرانی کے لئے انٹیلی جنس رابطہ کمیٹی کے قیام کا فیصلہ انتہائی مثبت ہے‘ایسی کمیٹیوں کی سربراہی اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کریں گے اس وقت حکومت پر فنانشل ایکشن پلان کا بڑا دباؤ ہے اور حکومت کی یہ کوشش اور خواہش ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کے دباؤ سے نکل آئے۔ رفاہی اداروں کے لئے رجسٹریشن کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہے اب ڈپٹی کمشنرز کی سربراہی میں انٹیلی جنس رابطہ کمیٹیوں کے قیام سے ان اداروں کا قبلہ درست ہوجائے گا اور یہ جن مقاصد کے حصول کے لئے قائم ہیں ان مقاصد کے حصول میں آسانی ہوگی خیراتی ادارے کو ہونے والی فنڈنگ اور خرچ کرنے سے متعلق مالی امور کو شفاف رکھنا ہوگا۔ رفاہی اداروں میں اس قانون کے نفاذ سے من مانیاں بھی ختم ہوں گی اور حکومت کو بھی معلوم ہوگا کہ یہ فنڈ کہاں سے آئے اور ان کا مصرف کیا ہے جوفلاحی ادارے حقیقی معنوں میں اپنے مقاصد کے حصو ل کے لئے سرگرم ہیں ان کو اس قسم کی قانون سازی سے پریشانی نہیں ہونی چاہئے بلکہ ان کے لئے تو آسانیاں پیدا ہوسکیں گی کیونکہ اگر کو ئی فلاحی اداروں کے نام پر ذاتی مفاد ات کے حصول کے لئے سرگرم ہے تو اب ایسے عناصر کا آسانی کے ساتھ کھوج لگایاجاسکے گا یقینا ایسے اقدامات کی بھرپور طریقے سے حمایت کرنی چاہئے تاکہ کسی کو بھی فلاح اوررفاہ کے نام پر ذاتی دکانداری چمکانے کاموقع نہ ملے۔