”یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید“ یہی وجہ ہے کہ اِنٹرنیٹ کی دنیا میں نت نئے خیالات کی اِہمیت و ضرورت شروع دن سے محسوس ہو رہی ہے۔ بنیادی محرک یہ ہے کہ انسان کے اندر چھپی ہوئی تخلیقی قوت‘ بے قراری‘ خوب سے خوب تر کی تلاش‘ سوچ بچار کا عمل اور اِس عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ذہانت ارتقائی مراحل سے گزر رہی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے خوب سے خوب اور بہتر سے بہتر کی تلاش کا محرک بھی یہی ہے جبکہ اِس پورے عمل کا نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ ایسی ہر کوشش جس میں روزمرہ کام کاج سے کاروباری امور اور سماجی تعلقات تک سہولیات متعارف ہوتی ہیں وہیں اِنسانی ذوق کی تسکین کو بھی مدنظر رکھا جاتا ہے اور اِسی لئے نت نئے سافٹ ویئرز کی صورت ایجادات کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے اور درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کی تعداد میں موبائل فون ایپس منظرعام پر آ چکی ہیں‘ جن میں سے چند ایک تو عالمی سطح پر مقبول ہیں۔ موبائل فون ایپس پر نظر رکھنے والا عالمی تجزیہ کار ادارے”سنسر ٹاور“ کے مطابق ”رواں ماہ (فروری دوہزاراکیس) کے پہلے ہفتے میں ”کلب ہاؤس“ نامی ایپ کو 20 لاکھ صارفین نے حاصل کیا۔“ اِس نئی فون ایپ کے ذریعے صوتی پیغامات کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے لیکن اِس ایپ کو حاصل کرنے کے لئے کسی نہ کسی صارف کی جانب سے ’دعوت نامہ‘ کا ہونا ضروری ہے۔ کلب ہاؤس استعمال کرنے والوں میں دنیا کی معروف شخصیات شامل ہیں۔ چین نے اِس ایپ پر پابندی عائد کر دی ہے اور سرمایہ کار سمجھتے ہیں کہ ’کلب ہاؤس‘ میں سرمایہ کاری کرنا سودمند ہوگا۔سماجی رابطہ کاری کے وسائل میں ’کلب ہاؤس‘ کا اضافہ اور پہلے سے موجود سہولیات کو نئے نام سے پیش کرنا بظاہر عام سی بات لگتی ہے لیکن ’کلب ہاؤس‘ کی مقبولیت اور استعمال میں اِس وجہ سے اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ فیس بک بمعہ میسنجر‘ واٹس ایپ‘ اسکائپ‘ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک وغیرہ جیسی مقبول ترین ’ایپس‘ پر الزامات ہیں کہ یہ اپنے صارفین کے کوائف کو فروخت کرنے کے علاوہ اِن کے استعمال سے تشہیری مہمات تخلیق کرتی ہیں جن سے اربوں ڈالر کمائی کی جا رہی ہے‘سوشل میڈیا کے نت نئے وسائل سامنے آتے رہتے ہیں لیکن وہ خاموشی سے دم توڑ جاتی ہیں جس کی بنیادی وجہ ہے یہ ہے کہ بڑی کمپنیاں اُن کے تصورات کو چوری کر لیتی ہیں اور یوں نئے تصورات بڑی سوشل میڈیا کمپنیاں نئے ناموں یا تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ اپنی ایپس میں شامل کر لیتی ہیں۔ معروف کمپنیوں کا تیسرا طریقہئ واردات یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ کسی وجہ سے نئے تصورات کو چوری نہ کرسکیں تو وہ اُونے پونے داموں نئی سوشل میڈیا کمپنیوں کو خرید لیتی ہیں اُور ایسی درجنوں مثالیں موجود ہیں جیسا کہ ٹوئیٹر نے وائن نامی مختصر دورانئے کی ویڈیو ایپ کو فوراً خرید کر ’ٹویٹر‘ کا حصہ بنا دیا تھا تاکہ صارفین کو اِس کی عادت نہ پڑے۔ بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کی ’اجارہ داری‘ کے باعث تحقیق کا علم محدود اور صرف اُنہی ممالک سے تعلق رکھنے والوں کے نام ہو چکا ہے جہاں ڈیٹا سائنس بشمول انفارمیشن ٹیکنالوجی پر جاری تحقیق کی حکومتی سرپرستی کی جاتی ہے۔’کلب ہاؤس‘ ایک ایسی اَیپ ہے جس میں ایک جیسی دلچسپیاں رکھنے والے مختلف موضوعات پر صوتی پیغامات کے ذریعے تبادلہئ خیال کرتے ہیں۔ یہ ایپ بالکل ’زوم کی طرح کام کرتی ہے لیکن اِن میں فرق یہ ہے کہ ’زوم‘ میں کیمروں کا استعمال ممکن ہوتا ہے یعنی بات چیت کرنے والے ایک دوسرے کو براہ راست دیکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر ’کلب ہاؤس‘ ٹیڈ ایکس کی ترقی یافتہ شکل ہے جس میں کسی ایک موضوع پر کوئی ماہر اظہار خیال کرتا اُور بہت سارے لوگ بیک وقت‘ اُسے سن رہے ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اِس قسم کے سنجیدہ تبادلہئ خیال کی ضرورت ایک وقت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ کلب ہاؤس ’اپریل دوہزاربیس‘ میں منظرعام پر آئی جس کی ملکیت رکھنے والی کمپنی ’الفا ایکپلوریشن‘ کی حصص مارکیٹ میں اِبتدائی قدر ’10کروڑ (100 ملین) ڈالر‘ تھی اُور صرف ایک ماہ کے اندر (اکیس جنوری دوہزاراکیس کے روز) اِس کے حصص کی قدر 1 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ کلب ہاؤس تک رسائی صرف جدید ’آئی فون‘ اُور آپریٹنگ سسٹم کے 13ویں ورژن سے ہوتی ہے جن کا پاکستان میں استعمال انتہائی محدود ہے۔ آئی فون کے علاوہ اینڈرائیڈ اور ویب سائٹ کے ذریعے ’کلب ہاؤس‘ سے استفادہ نہیں کیا جا سکتا۔کورونا وبا کے معروضی حالات میں جبکہ درس و تدریس کا روایتی عمل مختلف دورانیوں میں قریب 8 ماہ معطل ہے‘ سوشل میڈیا اِس تعطل کی وجہ سے پیدا ہونے والی خرابی پر بڑی حد تک قابو پانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن یہ بنیادی بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ عالمی سطح پر کامیاب و معروف اور سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ’ایپس‘ ضروری نہیں کہ پاکستان کے لئے یکساں مفید ہوں۔ کلب ہاؤس اُور دیگر سوشل میڈیا ایپس کے ذریعے صارفین کو فراہم کی جانے والی سہولیات انتہائی ترقی یافتہ شکل میں موجود ہیں‘ جن کے مطالعے اُور اپنی ضرورت کے مطابق پاکستان کے اپنے ’سوشل میڈیا پلیٹ فارم‘ تخلیق کرنے کی ضرورت ہے اُور یہ کمی جس قدر جلد پوری ہو‘ اُتنا ہی بہتر ہوگا۔