بلدیاتی انتخابات کی آمد آمد

گزشتہ دنوں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کیلئے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو اپنے اضلاع کے ریٹرننگ افسران مقرر کیا ہے‘پہلی بار سابقہ قبائلی علاقوں کے ضم شدہ اضلاع میں بھی اسی طرح بلدیاتی انتخابات ہونے جارہے ہیں جس طرح کا نظام صوبہ کے دیگر اضلاع میں قائم کیا جائیگا‘گزشتہ دنوں کی چند رپورٹس کے مطابق قوی امکان ہے کہ بلدیاتی انتخابات اپریل کے مہینے میں ہوں‘اگرچہ یہ بہت جلد ہوگا کیونکہ نہ صرف حکومت اور متعلقہ اداروں بلکہ انتخابات کیلئے متوقع امیدواروں نے بھی اپنی تیاریاں شروع نہیں کی ہیں تاہم اگر حکومت کا یہ خیال ہے کہ چونکہ پہلے سے ہی ان انتخابات کے انعقاد میں تاخیر ہو چکی ہے اس لئے اس کے فوری انعقاد کی ضرورت ہے تو یہ قابل فہم ہے بلدیاتی انتخابات ہی ملک کی سیاست کا سب سے موثر اور ہر گلی کوچے اور گاؤں تک پہنچنے والا نظام ہے جس کے ذریعے عوام اپنے لوگوں میں سے نمائندے منتخب کرتے ہیں ان کو ناظم‘ میئر‘ کونسلر بناتے ہیں اور پھر ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے ووٹ کے حق کی ادائیگی کرتے ہوئے نہ صرف گلی محلے کے مسائل حل کرینگے بلکہ ترقیاتی کاموں‘ تعلیمی اور صحت کی سہولیات کی فراہمی‘ بجلی اور گیس کی فراہمی‘ صاف پانی کی سہولت‘ نکاسی آب کا نظام بہتر بنانے‘سڑکیں اور گلیاں پختہ کرنے میں اپنا کردار ادا کرینگے‘ساتھ ہی ان کے ووٹ سے منتخب ہونے والے ضلع‘ تحصیل اور ٹاؤن ناظم اور کونسلر اور ویلج اور نیبرہڈ کے ناظم اور کونسلر اپنے اپنے حلقہ انتخاب میں مثبت سرگرمیوں کو فروغ دینگے نشہ‘ قماربازی‘ دشمنی اور جھگڑوں کی حوصلہ شکنی کرینگے سکولوں کالجوں‘ لائبریری‘ مثبت جرگوں اور عوام میں امن اور مفاہمت کے فروغ میں اپنے حصے کا کردار ادا کرینگے بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ہر کوئی ووٹ حاصل کرنے کے بعد سے اگلے ہی دن بدل جاتا ہے ان کا خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ ایم این اے‘ایم پی اے‘ضلع‘تحصیل ناظم‘ ویلج ناظم یا کونسلربنے ہیں تو یہ انکی خداداد صلاحیتوں کا کمال ہے نہ کہ عوام کے ووٹ کا اگر کوئی بیورو کریٹ یا سرکاری افسر یہ سمجھے تو بھی غلط ہے کیونکہ سرکار کے خزانے سے اس کو اس کے کام کا معاوضہ اور مراعات ملتی ہیں اور اس نے خود اس کے لئے امتحان دیکر اپنی خدمات پیش کی ہیں کہ وہ تقرری کے بعد عوام کا خادم بنے گا اسی لئے ہر سرکاری ملازم کو سول سرونٹ کہا جاتا ہے لیکن اگر عوام کے ووٹ سے منتخب ہو کر 4یا5 سال کیلئے منتخب ہونے والا کوئی ممبر اسمبلی‘ناظم‘ کونسلر یہ بات کرے تو اس کو کوئی حق نہیں کہ اگلی بار وہ پھر اعلیٰ لوگوں کی دہلیز پر جا کر ووٹ کی بھیک مانگے جن کو اس نے کئی سال تک نظر انداز کئے رکھا اور خود اس عہدے کا فائدہ اٹھاتارہا ہمارے ہاں ووٹر بھی اجتماعی مفاد کی بجائے ہمیشہ ذاتی مفاد کو ترجیح دیتا ہے خاندانی تعلق‘ دوستی‘ پارٹی یا کسی بھی وجہ سے ووٹ دیکر لوگ بعد میں 4اور5سال پچھتاتے رہتے ہیں اس کی بجائے اگر وہ میرٹ پر اہل‘ شریف قابل اور دیانتدار افراد کو قومی و صوبائی اسمبلیوں‘ ضلع اور تحصیل کونسلوں اور ویلج اور نیبرہڈ کونسلوں میں منتخب کریں تو نہ صرف ان کو پشیمانی نہیں ہوگی بلکہ اجتماعی مفاد کے کام بھی بہتر انداز میں ہوتے رہیں گے اب بھی بلدیاتی انتخابات کے علاوہ سینٹ کے انتخابات اور چند علاقوں میں ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں ہر ووٹر کو چاہئے کہ وہ پیسے کی لالچ میں پارٹی یا خاندان کے مفاد میں یا صرف برادری کی وجہ سے ووٹ دینے کی بجائے صرف اور صرف اہل دیانتدار اور ایماندار ایسے امیدواروں کوووٹ دیں جو انکے مسائل حل کر سکیں علاقہ کی ترقی‘ بجلی‘ گیس‘ پینے کے پانی نکاسی آب‘ سکول کالج ہسپتال اور دیگر سہولیات کی فراہمی اور انکی بہتری میں اپنا کردار ادا کرسکیں‘انتخابات سے قبل اچھا موقع ہے ہر امیدوار سے باقاعدہ ویڈیو میں یہ ضمانت لی جائے کہ انتخابات کے بعد وہ اس طرح عوام کے خادم رہیں اور انکے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرینگے اگر تیار نہیں تو انہیں دوسرے بہتر امیدوار کو موقع دینا چاہئے جو ایماندار اور دیانتدار ہونے کے ساتھ اہل ہو اور اپنا وقت دے سکے اگر انتخاب کے بعد وہ وعدے سے پھرتے ہیں تو ان کا ویڈیو بیان ان کو دکھا کر اور سنا کر انہیں ہر وقت یاددہانی کراتے رہنا چاہئے کہ وہ اس عہدے پر عام آدمی کی وجہ سے ہے۔