علوم کی دنیا میں سیاحت کا شمار ’سائنس‘ کے طور پر کیا جاتا ہے کیونکہ اِس کے کئی شعبے ہیں اور سیاحتی سہولیات فراہم کرتے ہوئے صرف غیرملکی مہمانوں ہی کے ذوق و شوق اور توجہ کے بارے میں نہیں سوچا جاتا بلکہ مقامی اور ملکی سیاحوں کی توقعات اور نکتہ¿ نظر کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے تفصیلات (باریکیوں) کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ اِس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت پشاور میں ’سیاحتی (خصوصی) و شہری (عمومی) سفری سہولیات‘ کا جائزہ لیں تو ’بس رپییڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی)‘ منصوبہ سرتاج (سرفہرست) دکھائی دیتا ہے جس کے تیرہ اگست دوہزار بیس سے تیرہ فروری دوہزار اکیس (چھ ماہ) کی کارکردگی کا جائزہ (تجربہ) یکساں دلچسپ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہل پشاور ’بی آر ٹی‘ سے استفادہ کرتے ہوئے توقع رکھتے ہیں کہ اِس منصوبے کے باقی ماندہ حصوں اور سہولیات کو مکمل کرنے کےلئے کام کی رفتار تیز رکھی جائے گی۔ حکومتی اداروں کی نگرانی میں ترقیاتی منصوبوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اِن کا معیار حکمرانوں کی دلچسپی اور نگرانی تک باقی و برقرار رہتا ہے جیسے ہی صوبائی کابینہ اراکین کسی سیاسی یا غیرسیاسی کام میں مصروف ہوتے ہیں تو پس پشت ہونے والے منصوبے پر کام کی رفتار کم ہونے کے ساتھ کام کا معیار بھی متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اُمید ہے کہ چھ ماہ بعد اور آئندہ چھ ماہ کے دوران صوبائی فیصلہ ساز ’بی آر ٹی‘ منصوبے پر توجہ برقرار رکھیں گے اور اِس کی تکمیل جو پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے مزید التوا¿ سے دوچار نہیں ہوگی۔اہل پشاور کی اکثریت ’بی آر ٹی‘ سے مسرور و مطمئن ہے اور یہ پشاور کے سیاحتی مقامات میں ”پروقار اِضافہ“ بھی ہے۔ توجہ طلب ہے کہ دیگر شہروں سے پشاور آنے والے ’بی آر ٹی‘ کے فن تعمیر‘ عالمی معیار کی سہولیات اور اِس میں سفر کرنے سے خود کو نہیں روک سکتے۔ ایسے ہی 2 مسافروں (بارہ سالہ فخر اور نو سالہ مَہدی) کے لئے ’بی آر ٹی‘ میں سفر کی خواہش اِس بات کی عکاس تھی کہ وہ پشاور سے دور رہتے ہوئے بھی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی مٹی سے تعلق بنائے ہوئے ہیں اور حالات حاضرہ سے آگاہ ہیں کہ پشاور کی ترقی میں بھی اطمینان محسوس کرنے والے اپنی نوعیت کے اِس منفرد سفری تجربے کا اشتیاق رکھتے ہیں جو اکثر خوشگوار حیرت پر اختتام پذیر ہوتا ہے۔ اُمید تھی کہ گنجائش سے زیادہ مسافروں سے کھچا کھچ بھری بس اور کورونا وبا سے بچاو¿ کےلئے حفاظتی تدابیر (SOPs) کی خلاف ورزیوں جیسے مناظر سے متعلق یہ دونوں بھائی (فخر اور مَہدی) زیادہ سوال و جواب نہیں کریں گے اور نہ ہی بس سٹیشنوں پر جاری ترقیاتی کاموں کے بارے پوچھیں گے کیونکہ ’بی آر ٹی‘ سے استفادہ کرنے والے سینکڑوں مرد و خواتین میں سے کوئی بھی نہ تو سوال کر رہا تھا اور نہ ہی اعتراض بلکہ بسوں اور مسافروں کی آمدورفت ایک خودکار نظام کی صورت جاری تھی اور یوں لگتا تھا کہ جیسے سب کچھ مشینی انداز میں‘ کسی فلم کی طرح بظاہر حقیقی لیکن درپردہ خاص طریقے و سلیقے سے سرانجام پا رہا ہو۔ حالات اور گردوپیش سے بے نیازی‘ اہل پشاور کی عمومی خصوصیت اور تعارف بن چکا ہے کہ یہ بہت کچھ سنتے‘ دیکھتے اور جانتے ہوئے بھی کچھ نہ دیکھنے‘ سمجھنے اور جاننے جیسے طرزعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور درپردہ یا پس پردہ محرکات کیا ہیں‘ اُنہیں زیادہ گہرائی سے جاننے کی جستجو (طلب) بھی نہیں رکھتے!تحریک اِنصاف کا ’فلیگ شپ‘ ریپیڈ بس ٹرانزٹ (سفری سہولیات کے) منصوبہ کا آغاز اکتوبر 2017ءمیں اُس وقت کے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے کیا تھا منصوبے میں شامل شاہراو¿ں کی مجموعی لمبائی 62 کلومیٹر بن جاتی ہے جن پر مسافروں کی سہولت کے لئے 162 بس سٹاپس اہل پشاور کے لئے باعزت و آرام دہ سفری سہولیات کا مجموعہ ہیں۔ ’بی آر ٹی‘ سے قبل پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والوں کو جس قدر ذلت‘ مشکل اور ذہنی و جسمانی کوفت اور پریشانی سے دوچار ہونا پڑتا تھا اُس میں بڑی حد تک کمی آئی ہے اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ ذاتی موٹر گاڑیاں رکھنے والے بھی ’بی آر ٹی‘ میں سفر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ سہولت دفتروں میں کام کرنے والوں اور طلبا و طالبات کو میسر آئی ہے جن کے لئے اپنی اپنی منزلوں پر بروقت پہنچنا ممکن ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ پر نجی اِداروں کی اَجارہ داری کم ہونے اور اہل پشاور کا ایک دیرینہ مطالبہ پورا ہونے پر اکثریت سوائے دعا اور تشکر کے اِظہار کچھ نہیں کہہ رہی اور وہ کمی بیشی یا منصوبے پر غیرمعمولی لاگت کے بارے میں زیادہ غور نہیں کیا جاتا ۔