ڈونلڈ ٹرمپ مواخذے کی کارروائی سے دوسری مرتبہ بری

واشنگٹن: امریکی سینیٹ نے دارالحکومت میں ہونے والے  پر تشدد احتجاج میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو  مواخذے کی کارروائی سے بری کردیا۔

 یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ایک سال کے عرصے میں مواخذے کی دوسری کارروائی تھی۔

  سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خلاف مواخذے کی کارروائی مسترد کرنے کے سینیٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ امریکا کو دوبارہ عظیم بنانے کا تاریخی اور خوبصورت لمحہ ہے۔

 ڈونلڈ ٹرمپ نے سینیٹ کی جانب سے مواخذے کی کارروائی مسترد ہونے کے فیصلے کے بعد اپنے بیان میں کہا کہ ابھی تو شروعات ہوئی ہے، ہماری سیاسی مہم ابھی شروع ہوئی ہے، آنے والے مہینوں میں اور بھی بہت کچھ بتانا ہے۔

 ڈونلڈ ٹرمپ نے مواخذے کو انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی اور کہا کہ امریکی برتری کے حصول کے لیے مل کر اپنا ناقابل یقین سفر جاری رکھنے کا منتظر ہوں۔

 برطانوی خبررساں ادارے  کی رپورٹ کے مطابق سابق صدر کے خلاف بغاوت پر اکسانے کے الزام میں ٹرائل 5 روز تک چلا اور ان کے خلاف ووٹوں کی تعداد 43 کے مقابلے 57 ووٹس رہی جبکہ انہیں سزا دینے کے لیے 2 تہائی اکثریت کی ضرورت تھی۔ 

ووٹنگ کے عمل میں 7 ریپبلکن سینیٹرز نے ڈیموکریٹس کی جانب سے ڈونلڈ ٹرمپ کو سزا دینے کی حمایت میں ووٹ ڈالا۔ واضح رہے کہ سابق صدر 20 جنوری کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے اس لیے مواخذے کی کارروائی کو انہیں عہدے سے ہٹانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا تھا لیکن ڈیموکریٹس کو امید تھی کہ وہ دارلحکومت کے پر تشدد گھیرا کا ذمہ دار ٹھہرانے پر انہیں سزا دلانے میں کامیاب ہوجائیں گے جس سے وہ دوبارہ سرکاری عہدے پر نہیں آسکیں گے۔

 سابق امریکی صدر نے اشتعال انگیز تقریر کی تھی جس کے فورا بعد ان کے حامیوں نے 6 جنوری کو امریکی دارالحکومت کے کیپٹل ہل پر چڑھائی کردی تھی۔

 ڈونلڈ ٹرمپ کے اٹارنی نے موقف اپنایا کہ ریلی میں دیے گئے ان کے بیان کو آئین کے تحت آزادی اظہار رائے کا تحفظ حاصل ہے اور انہیں اس کارروائی میں مناسب طریقہ کار نہیں دیا گیا۔ 

سابق امریکی صدر کے خلاف ان کی اپنی جماعت کے جن سینیٹرز نے ووٹ دیے ان میں رچرڈ بر، بِل کیسیڈی، سوسان کولِنز، بین ساسے، پیٹ ٹومی اور لیزا مرکوسکی شامل ہیں۔