گزشتہ دنوں کی سندھ یاترا کے دوران بہت کچھ دلچسپ دیکھنے کو ملا خاص طورپر یہ دیکھ کر حیرت اورخوشی ہوئی کہ سندھی بھائی اپنی زبان وثقافت کے ساتھ اس قدر مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں کہ ملک بھر کاکوئی اورخطہ اس کامثال پیش کرنے سے قاصر ہے خودہمارے ہاں اورتو اور پشتوجیسی بڑی اور قدیم زبان کا جو حشر نشر کیا جا رہا ہے اورجس طرح سرکار اس کی سرپرستی سے غفلت کامظاہرہ کرنے میں مصروف ہے وہ انتہائی تشویشناک امر ہے حالانکہ آئین پاکستان کی دفعہ 251کی ذیلی دفعہ تین کے تحت قومی زبان اردوکی حیثیت متاثر کئے بغیر کوئی بھی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم ترقی اور اس کے استعمال کے لئے اقدامات تجویز کرسکے گی اس شق کو سب سے بہتراندازمیں سندھی بھائیوں نے سمجھا ہے سندھی زبان کے حوالہ سے اگر یہ کہاجائے کہ اس وقت علاقائی اورصوبائی زبانوں میں سب سے بھرپورسرکاری سرپرستی اسے حاصل ہے اور اس وقت اس کی ترویج واشاعت کے لئے حقیقی معنوںمیں گرانقدر کوششیں جاری ہیں تو غلط ہرگز نہ ہوگا ہم حکومتی اقدامات کی بات تو بعد میں کریں گے پہلے اگر عام لوگوں کاجائزہ لیں تو جس طرح انہوں نے اپنی زبان کو سینے سے لگایاہواہے اس کااندازہ کراچی سے باہر نکلتے ہی ہونے لگتاہے جہاں راستے میں آپ کو قدم قدم پر چھوٹے بڑے شہروں اورقصبوں میں دکانوں کے سائن بورڈ اردو اورانگریزی کے بجائے صرف اورصرف سندھی زبان میں ملیں گے ایف آئی آر کااندراج بھی سندھی زبان میں کیا جاتا ہے کیایہ امرباعث حیرت نہیں کہ آئین پاکستان سے قبل ہی 1972ءمیں سندھی زبان کے استعمال وترویج کے حوالہ سے سندھی لینگویج ایکٹ پاس ہوا اورپھر 1990ءمیں سندھی زبان ترویج واستعمال کاایکٹ پاس ہوا اسی کے تحت پھر سندھی لینگویج اتھارٹی 1992ءمیں قائم ہوئی جس نے پھرسندھی زبان کے تحفظ وترویج کے لئے شاندارکردار اداکیاہے گزشتہ دنوں جب پشاور کے صحافیوں کے ایک گروپ کی سندھ کے وزیر ثقافت سید سردارعلی شاہ کے ساتھ ملاقات میں تفصیل سے باتیں ہوئیں تو اسی دوران پہلی مرتبہ ہم نے لینگویج انجینئرنگ کی اصطلاح بھی سنی اس سلسلہ میں صوبائی وزیر نے تفصیل سے سندھی لینگویج اتھارٹی اور اس کے جملہ پراجیکٹس کاذکر کیا ان کو اپنے محکمہ کے تمام معاملات زبانی ازبر تھے ثقافت سے لے کرسیاحت اور آثار قدیمہ تک ہر معاملہ میں انہوں نے بغیر کسی ماتحت سرکاری اہلکار کی مدد کے جس طرح معمولی جزئیات سے بھی ہمیں آگاہ کیا تو ہم بھی ان کی اپنے محکمہ کے ساتھ انصاف کے قائل ہوہی گئے وگرنہ تو سند ھ جانے سے قبل وہاں کی حکومت اوروزراءکے حوالہ سے ہماری رائے کچھ اورہی تھی سندھ حکومت کی طرف سے جو لینگویج اتھارٹی قائم ہے اس کے اغراض ومقاصد ہی حیران کردینے والے دکھائی دیتے ہیںمثلاً صوبائی و بلدیاتی اداروں کے ریکارڈ میں سندھی زبان کے درست استعمال کو یقینی بنانا،پھر میڈیا ،اخبارات اور ریڈیو پر درست انداز میں سندھی زبان کی ترویج اور سب سے حیران کن یہ کہ مقابلہ کے امتحانات سندھی زبان میں لینے کے حوالہ سے سہولت کاری گویا اغراض مقاصد ہی اس قدر بلندرکھے گئے ہیں کہ صرف اسی سے اتھارٹی کی اہمیت دوچند کردی گئی ہے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اتھارٹی وقتاً فوقتا ًسندھ بھر کے تمام نجی سکولوںکو چٹھیاں لکھ لکھ کران کو اس امرکی تاکید کرتی رہتی ہے کہ وہ اپنے اپنے ہاں سندھی زبان کی درس وتدریس کو ہرصورت یقینی بنائیں کیااس حوالہ سے کبھی ہم نے اپنے صوبے میں پشتوکے حوالہ سے ایسی کوئی کاوش دیکھی ہے ؟صوبائی وزیر نے جب لینگویج انجینئرنگ کی بات کی تو ہمارے چہروں پر حیرت کے آثار دیکھ کر خود ہی وضاحت کرتے ہوئے بتایاکہ اس وقت دنیا جس تیزی سے ڈیجیٹلائزیشن کی طرف سے جارہی ہے اس کی وجہ سے زبانوںکو بھی خطرات لاحق ہوتے جارہے ہیں رومن طرز تحریرکی وجہ سے مقامی زبانوں کے رسم الخط متاثر ہورہے ہیں چھوٹی زبانیںمعدومیت کے خطرات سے دوچار ہیں اس لئے ہماری کوشش ہے کہ لینگویج انجینئرنگ کے ذریعہ سندھی زبان کی ڈیجیٹل سکرینز پر تحفظ وترویج کویقینی بنائیں اوراس سلسلہ میں بعدازاں 2019ءکو عبدالماجد بھرگری انسٹی ٹیوٹ آف لینگویج انجینئرنگ قائم کیاگیا جو کمپیوٹر کے اس دور میں سندھی زبان کی ترویج کے لئے اب جدیداورڈیجیٹل اندازمیں کوششوں میں مصروف ہے گویا اس وقت اگر دیکھاجائے تو پشتو،پنجابی ،بلوچی ،براہوی ،ہندکو ،سرائیکی ،کشمیری اوردیگر مقامی زبانوں کے مقابلہ میں سندھی زبان اس لحاظ سے خوش قسمت واقع ہوئی ہے کہ عام سندھیوں کی محبت اور صوبائی حکومت کی بھرپور سرپرستی اسے میسر ہے کیاہی بہترہوکہ دیگرصوبے بھی صوبائی و علاقائی زبانوںکےلئے سندھ حکومت کے ماڈل سے فائدہ اٹھانے کےلئے حکمت عملی اختیار کرے اس امر کسی کو ہچکچانانہیں چاہئے کہ جو بھی حکومت جس میدان میں بھی قابل تقلید مثالیں قائم کرہی ہوان سے استفادہ کرتے ہوئے نت نئے تجربات سے بچنے کی کوشش کی جائے سندھ اورسندھی زبان اس سلسلہ میںیقینا مثال قائم کرچکے ہیں اب اگردیگرصوبے تقلید کریں تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہئے ۔