پشاور کہانی: ٹریفک پولیس۔۔۔۔۔

شہری زندگی کی خوبصورتی شاہراو¿ں پر روانی سے مشروط ہے کہ اِس ہدف کا حصول نظم و ضبط (پولیسنگ کے طریقے اور سلیقے) کے بغیر ممکن نہیں۔ ٹریفک قواعد پر عمل درآمد ممکن بنانے اور قواعد کی خلاف ورزی کی صورت جرمانے عائد کرنے سے قبل اُن سبھی لوازمات و سہولیات کا اہتمام ضروری ہوتا ہے جنہیں نظرانداز کرنے والوں پر مختلف شرح سے جرمانے عائد کر کے سزا دی جاتی ہے‘ یوں ٹریفک قواعد ’ایک ہاتھ سے بجنے والی تالی نہیں ہوتی‘ بلکہ اِس میں نگران ادارے (ٹریفک پولیس کے فیصلہ سازوں) کی دلچسپی اور افرادی و مالی وسائل سے سرمایہ کاری بھی خاص اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کے لئے ٹریفک پولیس کی منظور شدہ آسامیوں کی تعداد 1867 ہے جبکہ ملازمین کی تعداد 1297 یعنی ٹریفک پولیس میں 570 افراد کی کمی ہے۔ اِسی طرح ٹریفک پولیس سے متعلق عالمی اصول یہ ہے کہ آبادی کے تناسب سے ہر 450 افراد کی شرح سے 1 پولیس اہلکار ہو‘ اگر ’مو¿ثر پولیسنگ‘ کے اِس اصول ہی کو مدنظر رکھا جائے تو پشاور کی ضرورت اِس کے لئے مختص افرادی وسائل سے کہیں زیادہ ہے۔ تصور کریں کہ 92 یونین کونسلوں کی مجموعی آبادی کم سے کم 70 لاکھ جبکہ غیرمقامی افراد کے بشمول ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے تاہم حکومتی اعدادوشمار آبادی سے متعلق اِن زمینی حقائق کی تردید کرتے ہوئے مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔ سال 2017ءکی مردم شماری کے مطابق پشاور کی کل آبادی 42 لاکھ 69 ہزار 79 افراد پر مشتمل ہے (حیرت انگیز طور پر اِس آبادی سے زیادہ تعداد 92 یونین کونسلوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی ہے) لیکن اگر آبادی کے اِس حکومتی تناسب ہی کو درست تسلیم لیا جائے تو پشاور میں ٹریفک پولیس اہلکاروں کی کم سے کم تعداد بھی 4000 سے زیادہ ہونی چاہئے یعنی موجودہ صورتحال میں ایک چوتھائی کے قریب ٹریفک پولیس اہلکار صوبائی دارالحکومت کی ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اُمید ہے کہ صوبائی فیصلہ ساز ٹریفک پولیس کی افرادی کمی دور کرنے کے بارے غور کریں گے اور بالخصوص ”سٹی ٹریفک وارڈنز کا نظام (جون 2015ءمیں) متعارف کراتے ہوئے اُس وقت خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور پولیس کے صوبائی سربراہ ناصر خان درانی نے جن خوبیوں اور سہولیات کی فراہمی کا پشاور سے وعدہ کیا تھا وہ ضرور پورا کرینگے۔کسی شہر یا علاقے میں ٹریفک کی روانی ’ازخود‘ برقرار رہنے اور وہاں ٹریفک کے قواعد پر ’ازخود‘ عمل درآمد کی توقع رکھنا خودفریبی ہے کہ جس میں پاس کے ڈھول بھی سہانے لگتے ہیں کیونکہ ترقی یافتہ‘ خواندہ‘ باشعور اور آئینی و سماجی ذمہ داریوں کو بطور فرائض درجہ دینے والے ممالک میں بھی ٹریفک قواعد کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں لیکن وہاں اِن خلاف ورزیوں کو برداشت نہیں کیا جاتا بلکہ انہیں روکنے کے لئے ”نگرانی کا ایک ایسا مستعد نظام‘ ‘بنایا جاتا ہے جس کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ممکن نہ ہو۔ زیرغور موضوع کثیرالجہتی ہے کہ اِس میں 1: ٹریفک قواعد سے متعلق حقائق‘ 2: ٹریفک قواعد کے اطلاق سے متعلق صورتحال‘ رکاوٹیں اور بہتری کے امکانات‘ 3: عوامی سطح پر ٹریفک قواعد سے متعلق معلومات‘علم اور شعور کی کمی (احساس ِذمہ داری کے فقدان) اور اُس کمی بیشی کو دور کرنا ہے جس کے باعث ٹریفک قواعد پر عمل درآمد ممکن نہیں ہو پا رہا۔ ٹریفک پولیس اور عوام کے درمیان ’اِعتماد کا فقدان‘ اپنی جگہ ایک ایسا المیہ ہے کہ اِس کی موجودگی میں اصلاحات کے لئے کوششیں جس قدر بھی کی جائیں‘ ناکافی رہیں گی۔عوامی اور عمومی سطح پر ٹریفک سے متعلق قوانین و قواعد کے بارے ہر خاص و عام کی معلومات‘ علم و شعور اور احساس ِذمہ داری کی سطح کم سے کم ایک درجہ بلند ہونی چاہئے۔ موٹرویز کی طرح عمومی شاہراو¿ں اندرون شہر سے مضافاتی اور دیہی علاقوں تک ٹریفک قوانین و قواعد کا اطلاق ہر خاص و عام پر یکساں کیوں نہیں؟ سب سے اہم ضرورت یہ ہے کہ ٹریفک قواعد کے مطابق لوازمات و سہولیات کی فراہم ہونی چاہئیں‘ جن کی عدم موجودگی میں بہت سارے قواعد پر عمل درآمد ممکن نہیں رہتا ‘مثال کے طور پر حد رفتار سے تجاوز کرنا‘ غلط اُوور ٹیکنگ‘ غلط جگہ پارکنگ اور ون وے کی خلاف ورزی وغیرہ۔ جہاں ٹریفک قواعد بارے اعلانات نصب ہی نہیں ہوں گے وہاں اِس بات کی توقع کس طرح کی جا سکتی ہے کہ کوئی مقامی یا غیرمقامی اور خواندہ یا غیرخواندہ شخص اِن قواعد پر عمل درآمد کرے گا؟مغربی معاشروں کی دیگر سماجی خوبیوں میں ٹریفک وحدت کا مظاہرہ بھی قابل ذکر ہے کہ وہاں ٹریفک قواعد کا یکساں اطلاق اور اِن پر عمل درآمد کرنے میں خواص (وی آئی پیز) اور عوام کے درمیان تمیز نہیں کی جاتی اور نہ ہی قیمتی گاڑیوں میں بیٹھنے والوں سے رعایت کرتے ہوئے اُنہیں غیرتحریری استثنیٰ دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں اراکین اسمبلی‘ سینیٹرز‘ بلدیاتی نمائندوں اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کی تختیاں گاڑیوں پر چسپاں نظر نہیں آتیں۔ اُمید ہے کہ تجربات سے ثابت اِس حقیقت بارے بھی غور ہوگا کہ انسانی معاشرے میں ’اجتماعی بہتری‘ کی کوششیں خواہشات سے نہیں بلکہ مثالوں پر عمل سے ظہورپذیر ہوں گی اور جب تک قانون و قواعد پر عمل درآمد مصلحتوں سے بالاتر نہیں ہو جاتا اُس وقت تک بہتری ممکن نہیں۔ بالعموم طرزِعمل ہے کہ ہمارے ہاں قوانین اور قواعد کا اطلاق پوری قوت سے نہیں ہو رہا اور قانون کی نظر میں ادنیٰ و اعلیٰ‘ امیر و غریب‘ سیاسی و سماجی بااثر طبقات اور عام آدمی کے درمیان تمیز رکھی جاتی ہے۔ ٹریفک قواعد کے مطابق سہ رنگی (سرخ‘ پیلی اور سبز) سگنل لائٹ‘ یک رنگی (پیلی) سگنل لائٹ‘ زیبرا کراسنگ‘ حد رفتار (سپیڈ لیمٹ) کے نشانات نصب کرنے کے علاوہ سپیڈ بریکرز جیسی تدابیر اختیار کی جاتی ہیں اور شاہراو¿ں کو ’یک طرفہ ٹریفک‘ کے لئے مخصوص کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ٹریفک پولیس نہ صرف افرادی بلکہ تکنیکی وسائل کی کمی کا بھی شکار ہے اور اِن دونوں مسائل کا حل جہاں اخراجات میں کفایت شعاری سے ممکن ہے وہیں ٹریفک جرمانوں سے حاصل ہونے والی خطیر رقم کا کم سے کم پچاس فیصد حصہ توسیع اور ترقیاتی امور کے لئے مختص کرنے کے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ پشاور شہر‘ مضافات اور دیہی علاقوں کی شاہراو¿ں پر تجاوزات کے باعث ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہے جبکہ تجاوزات ختم کرنے کے لئے مالی وسائل کی نہیں بلکہ خلوص ِنیت اور مصلحتوں سے بالاتر ہو کر قوانین و قواعد کے عملاً اطلاق کی ضرورت ہے۔