تحریک انصاف کو سینٹ محاذ پر نیا اِمتحان درپیش ہے جہاں زیرغور معاملہ ’واجبی نمائندگی“ کا نہیں بلکہ ”حقیقی نمائندگی“کا ہے۔ سینیٹ اِنتخابات کیلئے پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزدگیوں کا اعلان کر دیا گیا ہے جن میں خیبرپختونخوا کی صوبائی اسمبلی سے سب سے زیادہ تعداد میں یعنی 10سینیٹرز کا انتخاب ہونا ہے چونکہ تحریک انصاف خیبرپختونخوا اسمبلی کی اکثریتی جماعت ہے اِس لئے سب کی نظریں اُس انصاف کی جانب مبذول تھیں کہ اِس مرتبہ صوبے کے 35 اَضلاع پر مشتمل 7 ڈویژنز (مالاکنڈ‘ ہزارہ‘ مردان‘ پشاور‘ کوہاٹ‘ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان) سے کتنا اِنصاف کیا جاتا ہے بالخصوص تحریک اِنصاف کے دیرینہ کارکن سینیٹ نامزدگیوں سے متعلق فیصلوں سے کس قدر اتفاق کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کی جانب سے 13 فروری کی شام سینیٹ کے لئے نامزد اراکین کی فہرست جاری کی گئی‘15 فروری تک اِن ناموں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔سینیٹ کیلئے نامزدگیوں کے حوالے سے سوشل میڈیا (فیس بک اور ٹوئیٹر) کے علاوہ واٹس ایپ گروپوں میں تحریک انصاف ہزارہ ڈویژن کے کارکن شدید ردعمل (ناپسندیدگی) کا اظہار کر رہے ہیں۔ کارکنوں کی جانب سے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے سخت تبصرے بھی کئے گئے ہیں اور قیام پاکستان کی تحریک میں ہزارہ ڈویژن کے تاریخی کردار‘ واقعات و کارکردگی کے حوالے دیئے گئے ہیں۔دریائے سندھ کے مشرقی کنارے سرسبز پہاڑی (بالائی) اور زرخیز میدانی (زریں) علاقوں پر مشتمل ہزارہ ڈویژن میں اِیبٹ آباد‘ بٹ گرام‘ ہری پور‘ لوئر کوہستان‘ مانسہرہ‘ تورغر‘ کولائی پلاس اور اَپر کوہستان نامی اضلاع شامل ہیں‘ جن کی سینیٹ میں ہزارہ ڈویژن کی نمائندگی سینیٹر اعظم سواتی 2006ء سے کر رہے ہیں جبکہ تقاضا یہ ہو رہا ہے کہ ’سینیٹ میں ہزارہ ڈویژن کو نمائندگی ملنی چاہئے‘ جو (برائے نام) نمائندگی ہونے کے باوجود بھی محروم ہے!“ سمجھ سے بالاتر ہے کہ کسی ایک ڈویژن کو سینیٹ میں 2 لیکن دوسرے ڈویژن کو سینیٹ میں ”حقیقی نمائندگی“ نہ دی جائے جس سے دور افتادہ اور بیشتر غربت زدہ اضلاع میں پائے جانے والے ’احساس محرومی‘ میں اضافہ منطقی ردعمل ہے ا تحریک ِانصاف نے خیبرپختونخوا کے 7 ڈویژنز سے 10 سینیٹ نامزدگیاں کرنا تھیں اور یہ قطعی مشکل نہ تھا کہ ہر ڈویژن کو نمائندگی دی جاتی۔ یاد دہانی کے لئے عرض ہے کہ ہزارہ ڈویژن وہی ہے جس نے ایک ارب شجرکاری مہم (بلین ٹری سونامی) سے لیکر سیاحتی ترقی کے ذریعے تحریک انصاف کے ویژن کو عملی جامہ پہنایا اور پوری دنیا میں تحریک انصاف کو پذیرائی ملی۔مئی 2013ء کے عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ہزارہ ڈویژن کے اضلاع میں رجسٹرڈ ووٹرز کی کل تعداد 23 لاکھ 41 ہزار 782 (مرد ووٹرز 13 لاکھ 31ہزار 518 اور خواتین ووٹرز 10لاکھ 10ہزار 264) تھی جبکہ جولائی 2018ء کے عام اِنتخابات کے موقع پر جہاں ملک گیر سطح پر رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد میں 2013ء کے عام انتخابات کے مقابلے میں 23 فیصد اضافہ ہوا‘ وہیں ہزارہ ڈویژن کے ووٹرز کی تعداد 35 لاکھ تک جا پہنچی۔ اِن اعدادوشمار کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ ہزارہ ڈویژن سینیٹ میں حقیقی نمائندگی نہیں رکھتی تو درحقیقت اِس سے مراد 35 لاکھ سے زائد ووٹرز کی آواز ہوتی ہے جن کے نمائندے قومی و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں تو موجود ہیں لیکن 3 مارچ کے بعد قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) میں ہزارہ ڈویژن کی ”حقیقی و معنوی نمائندگی“ نہیں ہوگی۔