ایوان بالا کی خالی ہونے والی نشستوں پر انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے امیدواروں کی نامزدگی کردی ہے۔ حکومت سینٹ انتخابات شو آف ہینڈز کے ذریعے کرانے پر مصر ہے۔عدالت عظمی نے اگر اوپن بیلٹ سے متعلق حکومت کی درخواست منظور کرلی تو شو آف ہینڈز کے زریعے ہی ایوان بالا کے ارکان کا انتخاب ہوگا دوسری صورت میں پرانے طریقہ کار کے تحت خفیہ رائے شماری ہوگی۔ حکمران جماعت پی ٹی آئی نے اسلام آباد کی جنرل سیٹ کیلئے مشیر خزانہ حفیظ شیخ اور خواتین نشست پر فوزیہ ارشد کا نام فائنل کرلیا ہے۔پنجاب سے جنرل سیٹ پر سیف اللہ نیازی کو ٹکٹ دیے جانے کا امکان ہے،ٹیکنو کریٹ سیٹ پر علی ظفر،پنجاب سے خواتین نشست پر ڈاکٹر زرقا کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ ہوا ہے۔،خیبر پختونخواسے جنرل سیٹ کیلئے وزیراطلاعات شبلی فراز، محسن عزیز، ذیشان خانزادہ، فیصل سلیم، دوست محمد،ثانیہ نشتر،فلک ناز اور گردیپ سنگھ کا نام فائنل ہوچکا ہے۔انہوں نے کاغذات نامزدگی بھی جمع کرادیئے ہیں۔ پیپلز پارٹی نے خیبر پختونخوا سے جنرل سیٹ پر فرحت اللہ بابر کو ٹکٹ جاری کیا ہے جب کاغذات نامزدگی جمع کرائے جارہے تھے تو فرحت اللہ بابر کے پاس الیکشن کی فیس کم پڑ گئی۔ الیکشن فیس 40 ہزارروپے تھی اورفرحت اللہ بابر کی جیب میں صرف 32 ہزارروپے تھے۔ اس موقع پر پیپلزپارٹی کے ارکان نے چندہ کرکے پیسے پورے کیے۔ایک طرف سینٹ میں ایک ایک ووٹ کیلئے چالیس پچاس کروڑ روپے کے ریٹ مقرر ہیں۔ دوسری جانب فرحت اللہ بابر جیسے لوگ بھی سینٹ کے امیدوار ہیں جن کے پاس الیکشن کی فیس جمع کرانے کیلئے بھی پیسے نہیں ہیں۔کیونکہ انہوں نے سیاست کو کبھی پیسہ کمانے کا ذریعہ نہیں بنایا۔ہمیشہ اصولوں اور خدمت کی سیاست پر یقین رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے پاس کوئی جائیداد، کوٹھی، قیمتی گاڑی ہے نہ ہی کروڑوں اربوں روپے کا بینک بیلنس ہے۔ ایسے مخلص کارکن ہر پارٹی میں موجود ہیں جو کسی ستائش کی پروا کئے بغیر سیاسی قیادت سے وفاداری کا دم بھر رہے ہیں۔پیپلز پارٹی کی مرکزی مجلس عاملہ کی رکن بیگم سیلمان کا نام بھی ایسے ہی مخلص کارکنوں میں شامل ہے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی دعوت پر 1969میں اپنے خاندان کی مخالفت کے باوجود پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 1972 سے1977تک خواتین کی مخصوص نشست پر صوبائی اسمبلی کی رکن رہی۔ ان کا دس مرلے کا ذاتی مکان عشروں تک صوبے میں پارٹی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔ بے نظیر بھٹو، میرمرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو ان کی گود میں پل کر جوان ہوئے۔ وہ پیپلز پارٹی شعبہ خواتین میں مختلف عہدوں پر فائز رہیں۔ ان کی پارٹی کو چار مرتبہ مرکزاور صوبائی سطح پر اقتدار ملا مگر انہوں نے پارٹی سے کوئی پلاٹ، بنگلہ، گاڑی، ٹھیکہ یا پرمٹ نہیں لیا۔کئی بار انہیں جبروتشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں۔مارشل لاء دور میں بحالی جمہوریت کیلئے آواز اٹھانے پر ان کی چھ سالہ بچی کو بھی ماں کے ساتھ جیل میں ڈال دیا گیا۔ گذشتہ 52سالوں سے وہ اپنے پرس سے سالانہ ایک لاکھ روپے پارٹی کے فنڈ میں جمع کرتی رہی ہیں۔ایسے مخلص کارکن بلاشبہ کسی بھی پارٹی کا قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں لیکن سیاسی پارٹیوں کا المیہ یہ ہے کہ اخلاص، وفاداری، دیانت داری، امانت داری اورایثار کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔۔فرحت اللہ بابر اور بیگم سلیمان جیسے مخلص اور بے لوث کارکنوں پر جمہوریت سے محبت کرنے والوں کو بجاطور پر فخر ہے۔ ان کی ذات،خدمات اور نظریات دوسرے کارکنوں کیلئے مشعل راہ ہیں۔حقیقت یہی ہے کہ ایسے ہی درویش صفت کارکنوں کی بدولت ہی سیاست اور جمہوریت پر لوگوں کا اعتبار ابھی تک قائم ہے‘ دیکھا جائے تو سیاست پر لوگوں کا اعتماد بحال کرنے کے لئے ایسا ماحول پروان چڑھانا ضروری ہے جہاں دھن دولت کی بجائے اصولوں اور اقدار کے پابند لوگوں کی قدر ہو۔