پرفارمنس ڈیلیوری یونٹ کی رپورٹ۔۔۔

وزیر اعظم کی ہدایت پر عوامی شکایات کو بروقت حل نہ کرنے اورغیر موثر کارکردگی کے حامل سرکاری افسروں کے خلاف کاروائی شروع کردی گئی۔ پرفارمنس ڈیلیوری یونٹ کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کر دی گئی جس کے مطابق 263 افسروں کو ناقص کارکردگی کی بنیاد پر وارننگ ،7 سرکاری افسروں کو شوکاز نوٹس جاری کر دیئے گئے ۔833 افسروں کو محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی اور 111 افسروں سے وضاحت طلب کی گئی ہے، صرف 403 سرکاری افسروں کی کارکردگی کو سراہا گیا ۔وزیراعظم نے کابینہ اجلاس کے دوران سرکاری افسروں کی ناقص کارکردگی کا نوٹس لیا تھا،وفاقی وزراءنے بھی بیوروکریسی کے غیر سنجیدہ رویے کی شکایت کی تھی۔ڈپٹی کمشنروں کی وساطت سے مختلف محکموں کے سینکڑوں افسروں کو وارننگ لیٹر جاری کردیئے گئے جس کا مقصد تمام افسروں کو تنبیہ کرنا ہے کہ وہ عوام کے خدمت گار ملازم ہونے کے ناطے انہیں سہولیات کی فراہمی کےلئے اقدامات کریں۔سرکار کی نوکری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہاں کچھ بھی نہ کرنے پر تنخواہ اور دیگر مراعات ملتی رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے والے تمام ہی لوگ سرکاری نوکری کو سب سے زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ اکثر ملازمین کوئی کام کئے بغیر اپنی مدت ملازمت پوری کرلیتے ہیں اگر شومئی قسمت سے کسی دن چھاپہ پڑ گیا۔یا کوئی سنگین غلطی سرزد ہوئی تو زیادہ سے زیادہ شوکاز نوٹس جاری کیاجائے گا۔ مسکا پالش لگاکر شوکاز کا جواب لکھ دیا جائے تو بات وہیں ختم ہوجاتی ہے اگر پھر بھی معاملہ لٹک گیا تو اس کے خلاف انکوائری ہوگی۔ اپنے ہی پیٹی بند تفتیش کریں گے اور الزام کسی تیسرے شخص پر ڈال کر اسے بری کردیں گے۔ یہاں بھی اگر قسمت نے ساتھ نہ دیا اور انکوائری میں قصور وار ٹھہرایاگیا تو دو چار ہفتے کےلئے معطل کیاجائے گا۔یعنی اسے دفتر آنے کی زحمت بھی گوارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ تنخواہ گھر پر ملتی رہے گی۔ اس کے بعد آئندہ محتاط رہنے کی وارننگ دے کر کام پر واپس بلایاجائے گا۔حق کی بات یہ ہے کہ تمام سرکاری افسران اور ملازمین کام چور نہیں ہوتے ۔ان میں ڈھیر سارے انتہائی دیانت دار، امانت دار، کام کرنے کی اہلیت سے مالامال اور جفاکش بھی ہوتے ہیں۔ کسی بھی سرکاری اور پرائیویٹ ادارے میں سبق یاد کرنے والوں کو سب سے زیادہ رگڑا دیا جاتا ہے۔ یہی حال دیانت دار سرکاری افسروں کا ہے جن کے خلاف کرپشن، بے قاعدگی، اقرباءپروری اور بددیانتی کی شکایت نہ ہو۔انہیں دور دراز کے سٹیشنوں پر تعینات کیاجاتا ہے۔افسر شاہی کو عوام کی بے لوث خدمت پر لگانے کے حوالے سے وزیراعظم کے اقدامات قابل ستائش ہیں مگر ان اقدامات کے دور رس اور ثمرآور نتائج برآمد ہونے کا امکان بہت کم ہے۔ کیونکہ اصل خرابی افسروں کی بھرتی کے طریقہ کار اور تربیت میں پنہاں ہے۔ افسروں کی تربیت کا نصاب انگریزوں نے برصغیر کے لوگوں کو بزور طاقت زیر رکھنے کےلئے بنایا تھا۔ جس میں زیرتربیت افسروں کو بتایاجاتا ہے کہ ان کا عوام سے کوئی دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے، وہ مافوق الفطرت مخلوق ہیں اس لئے انہیں عوام سے فاصلہ رکھنا چاہئے اپنا رعب و دبدبہ برقرار رکھنا چاہئے۔ حکومت اگر بیوروکریسی کو عوام کا خادم بنانا ہی چاہتی ہے تو اسے افسروں کا تربیتی نصاب بدلنا ہوگا۔انہیں غریبوں، بیواﺅں، یتیموں اور کمزوروں کا سہارا بننے، انسانیت کے احترام، فرض شناسی اور دیانت داری کا سبق دینا ہوگا۔اس کے بغیر اصلاح احوال کی ساری کوششیں رائیگاں جائیں گی۔