ایک خبر کے مطابق یوسف خان المعروف دلیپ کمار نے پشاور میں اپنا آبائی گھر ’وقف‘ کرنے کی وصیت کر رکھی ہے ذہن نشین رہے کہ محمد یوسف خان گیارہ دسمبر اُنیس سو بائیس پشاور کے محلہ خداداد میں پیدا ہوئے۔13جولائی 2013ءکے روز اُس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے دلیپ کمار کے گھر کو ’قومی ورثہ (National Heritage) قرار دیا تھا لیکن تب سے آج تک ہر دور حکومت میں اِس گھر کی اہمیت کو تسلیم تو کیا جاتا ہے لیکن اِس کی تعمیرنو‘ بحالی اور حفاظت و ترقی کےلئے خاطرخواہ عملی اقدامات نہیں کئے جاتے۔ 5 مرلہ سے کم اراضی پر اِس 3 منزلہ عمارت کی تعمیر میں بیشتر لکڑی کا استعمال کیا گیا ہے جو انتہائی خشک اور بوسیدہ حالت میں ہونے کی وجہ سے مکان کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی ہے۔ چھتیں منہدم ہیں جبکہ اِس بھوت بنگلے کی قسمت کب جاگے گی نہیں معلوم لیکن ہر دورِ حکومت میں دلیپ کمار کے آبائی گھر کا ذکر بلندبانگ دعوو¿ں کے ساتھ سننے میں آتا ہے۔ اِس سلسلے (کڑی) کی تازہ ترین خبر10فروری (دو ہزاراکیس) کے روز سامنے آئی تھی جب محکمہ¿ آثار قدیمہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ دلیپ کمار اور راج کپور کے آبائی گھروں کو خریدنے کے لئے مالی وسائل صوبائی خزانے سے مختص کر دیئے گئے ہیں۔ کپور حویلی کی قیمت ڈیڑھ کروڑ جبکہ دلیپ کمار کے آبائی گھر کی قیمت 80 لاکھ روپے لگائی گئی اُور مجموعی طور پر 2 کروڑ 35 لاکھ 70 ہزار روپے مختص کئے گئے ہیں۔ یہ رقم صوبائی حکومت کی جانب سے پشاور کی ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر) کو فراہم کی جائے گی جو اِن مکانات کی خریداری کریں گے۔ صوبائی حکومت مذکورہ دونوں مکانات کو خرید کر اُنہیں ثقافتی عجائب گھروں میں تبدیل کرنا چاہتی ہے تاکہ اِن کے ذریعے پشاور میں سیاحت کو فروغ دیا جا سکے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ ایک طرف دلیپ کمار کی جانب سے دیا جانے والا مختار نامہ ہے جس کے مطابق اُنہوں نے اپنا آبائی مکان اہل پشاور کے نام وقف کر دیا ہے اور مختار نامہ صرف اُسی صورت جاری ہوتا ہے جبکہ کسی جائیداد یا اراضی کی ملکیت موجود ہو جبکہ دوسری طرف صوبائی حکومت اُس مکان کو خرید رہی ہے تحریک انصاف حکومت نے تھانہ اور پٹوار خانہ کلچر تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن یہ دونوں وعدے پورے نہیں کئے۔ تھانہ کلچر میں تبدیلی کے لئے اِنفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے ’اِی گورننس‘ کے تجربات جاری ہیں جبکہ پشاور میں جائیدادوں اور اراضی کا ڈیٹا ’کمپیوٹرائزڈ‘ کرنے کا عمل 8 سال سے جاری ہے اور مکمل نہیں ہو رہا تو اِس التوا¿ کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ ایک خاص گروہ (مافیا) ”لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن“ کی راہ میں حائل ہے۔ اِس سلسلے میں پنجاب کی مثال موجود ہے جس کے لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن کاعمل مکمل ہو چکا ہے اور اُس پورے عمل کی تفصیلات متعلقہ محکمے (پنجاب لینڈ ریکارڈز اتھارٹی) کی ویب سائٹ (punjab-zameen.gov.pk)پر ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ لینڈ ریونیو مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم (LRMIS) کیا ہے‘ کیسے بنایا گیا‘ کیسے کام کرتا ہے اور اِس کے ذریعے کس طرح جعل سازی اور سرکاری و نجی املاک کو قبضہ کرنے کی کوششیں ناکام بنائی جا رہی ہیں یہ سب سمجھنے کے لئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں بلکہ صوبہ پنجاب کے تجربات اور اُن کے نتائج سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا میں لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن کا عمل (پہلا مرحلہ) 2013ءمیں 7 اضلاع (پشاور‘ مردان‘ ایبٹ آباد‘ بونیر‘ کوہاٹ‘ بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان) سے شروع ہوا جبکہ دوسرے مرحلے کا آغاز 2015ءمیں کیا گیا جس میں سوات‘ شانگلہ‘ مانسہرہ‘ بٹ گرام‘ نوشہرہ‘ چارسدہ‘ ہنگو‘ کرک‘ ہری پور‘ صوابی‘ لکی مروت اُور ٹانک میں کیا گیا لیکن اِن سبھی اضلاع میں فرد نمبروں کا اجرا¿ اُسی روائتی انداز میں (حسب سابق) جاری ہے۔ ناقابل فہم ہے کہ جو کام چند ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ مہینوں میں مکمل ہو جانا چاہئے تھا‘ اُس کی تکمیل میں اِس قدر تاخیر کا باعث اَمر کیا ہے۔ اُمید ہے اِس بارے میں وفاقی اور صوبائی فیصلہ ساز ’خصوصی توجہ‘ دیں گے کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت 2013ءسے جاری ہے لیکن 8 سالہ دور مکمل ہونے اور حکمرانی کے اِس تسلسل کے باوجود بھی حکومتی فیصلوں‘ اقدامات اور اعلانات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟