صوبائی سطح پر ترقیاتی اَمور سے متعلق فیصلہ سازی اور ترجیحات کا تعین ’پروانشیل ڈویلپمنٹ ورکنگ پارٹی (PDWP)‘ کرتی ہے جس کے حالیہ اجلاس (دس فروری دوہزاراکیس) میں 38 ترقیاتی منصوبوں کی منظوری دی گئی جو صحت‘ تعلیم‘ اوقاف‘ اقلیتی امور‘ سماجی ترقی‘ شہری ترقی‘ کھیل و سیاحت‘ صنعت‘ انصاف اور دیگر شعبوں سے متعلق ہیں اور اِن میں ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں سہولیات کی بہتری اور تعمیروترقی کے عنوان سے ایک منصوبہ بھی شامل ہے۔ توجہ طلب ہے کہ 1984ءمیں قائم ہونے والے ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم میں 20 ہزار تماشائیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی‘ جسے 2021ءمیں 35 ہزار تماشائیوں کے لئے بڑھایا جا رہا ہے جبکہ کورونا وبا کی وجہ سے اجتماعات پر پابندی ہے اور دنیا کے وہ بڑے سٹیڈیم جہاں لاکھوں افراد کے بیٹھنے کا بندوبست ہے وہ بھی خالی پڑے ہیں۔ ایسی صورت میں پشاور کے ایک سٹیڈیم میں تماشائیوں کی تعداد بڑھانے کا منصوبہ قریب دو سال سے جاری ہے اور توقع تھی کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) مقابلوں میں اِس مرتبہ (دوہزاراکیس) میں میچز پشاور میں منعقد ہوں گے لیکن انتہائی سست روی سے جاری کام مکمل ہونے کے باوجود بھی مکمل نہیں جس میں مزید وسعت (بہتری) کی گنجائش بڑھانے میں مزید 2.1 ارب روپے کی سرمایہ کاری اپنی جگہ تعجب خیز ہے۔ شاہی باغ کی اراضی پر قائم ہونے والے کرکٹ سٹیڈیم کو ’ارباب نیاز‘ کے نام سے منسوب کرنا بھی دوسرا ایسا غیرمنطقی اقدام ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ مغل دور میں قائم ہونے والے ’شاہی باغ‘ کا رقبہ 100 ایکڑ سے زیادہ تھا تاہم اِس کی اراضی پر صرف ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم ہی نہیں بلکہ میونسپل سکول‘ ٹاو¿ن اور ضلعی بلدیاتی اداروں کے دفاتر قائم کئے گئے جبکہ اگست 2009ءامریکہ حکومت کے امدادی ادارے یو ایس ایڈ (USAID) کے تعاون سے شاہی باغ کی تزئین کے نام پر باغ کے کئی حصوں کو اجارے پر دیدیا گیا۔ عوامی نیشنل پارٹی کی صوبائی اور ضلعی حکومت کے دور میں اہل پشاور نہ صرف شاہی باغ بلکہ وزیرباغ کے بڑے حصے بلکہ جناح پارک اور شہر کے مختلف حصوں میں قائم چھوٹے سبزہ زاروں بشمول ’پنچ تیرتھ (چاچا یونس پارک)‘ سے بھی محروم ہوا اور 2012ءمیں اِس ’تخریب کاری‘ کا نوٹس عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) نے لیتے ہوئے حکم دیا کہ شاہی باغ میں کی گئی تمام تعمیرات مسمار کی جائیں اور شاہی باغ کے رقبے کو اُس کی اصل حالت و پیمائش کے مطابق بحال کیا جائے۔ عدالت نے باغ کے اندر ہونے والی ہر قسم کی تعمیرات کو ’غیرقانونی‘ اور ’تجاوزات‘ قرار دیا لیکن اِس عدالتی فیصلے پر اُس کی روح کے مطابق عمل نہ ہو سکا اور اگرچہ عدالتی فیصلے کا اطلاق دیگر پشاور کے باغات اور سبزہ زاروں (پارکس) پر بھی یکساں ہوتا ہے لیکن متعلقہ بلدیاتی اداروں (ضلعی و ٹاو¿ن ون انتظامیہ) کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں (سال 2013ءسے) شاہی باغ میں تعمیرات پر سینکڑوں کروڑ روپے خرچ ہو چکے ہیں جبکہ مزید خطیر رقم مختص کر دی گئی ہے تو موجودہ صوبائی فیصلہ سازوں کو عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) کے فیصلے کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ اندیشہ ہے کہ وہ لاعلمی میں توہین ِعدالت کے مرتکب نہ قرار پائیں!شاہی باغ کی اراضی پر ارباب نیاز کرکٹ سٹیڈیم‘ گورنمنٹ کالج‘ میونسپل انٹرکالج برائے طالبات‘ پاکستان ٹینس کلب‘ پردہ باغ شادی ہال‘ جمخانہ کرکٹ گراو¿نڈ‘ شالیمار گارڈن‘ شاہ طہماس فٹ بال سٹیڈیم‘ ٹریفک پولیس اور ضلعی حکومت و ٹاو¿ن ون کے دفاتر اور دکانیں قائم ہیں۔ یہ سبھی تعمیرات مختلف ادوار میں اُنہی فیصلہ سازوں کی منظوری سے ہوئیں جنہیں اہل پشاور نے فیصلہ سازی کے مختلف اداروں کے لئے منتخب کیا تھا۔ اِن میں بلدیاتی نمائندے‘ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز شامل ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آخر ’شاہی باغ‘ میں تجاوزات قائم کرنے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا اور شاہی باغ کی اراضی کو ’مال مفت‘ سمجھنے کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ٹاو¿ن ون کے انتظامی بندوبست کے تحت ’شاہی باغ‘ کو 2 حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جبکہ دیگر اوّل الذکر تجاوزات نظرانداز کر دی جاتی ہیں۔ ٹاو¿ن ون دستاویزات کے مطابق شاہی باغ کی اراضی پر ترقیاتی کام (پی سی ون پر عمل درآمد) جاری ہے تاہم یہ ترقیاتی کام جس میں سبزہ زار اور درختوں کو ختم کرکے سیمنٹ کی راہداریاں اور پختہ تعمیرات کی گئی ہیں مارچ 2020ءمیں مکمل ہونا تھا۔ دنیا کا شاید ہی کوئی دوسری ایسی مثال (ایسا باغ) ہو کہ جس کی انتظامیہ وہاں سبزہ زار اور درختوں کی بجائے پختہ تعمیرات پر اربوں روپے خرچ کر رہی ہو!۔حقائق مسلمہ اور متفقہ مطالبے کے طور پر توجہ طلب ہیں۔ 1: شاہی باغ پشاور کی تاریخ‘ سیاست‘ سماجیات اور ماحولیات میں اہم مقام رکھتا ہے۔ 2: شاہی باغ میں تجاوزات کا خاتمہ ہونا چاہئے اور 3: شاہی باغ کو اُس کی اصل حالت میں بحال ہونا چاہئے جہاں سبزہ زار اور درخت ہوں۔ 4: شاہی باغ کے سایہ دار‘ گھنے درخت کاٹنے والے مجرم کون تھے اُن کے درجہ بہ درجہ نام بھی اہل پشاور کے سامنے پیش ہونے چاہیئں کہ کس دور میں شاہی باغ پر مشق ستم ڈھانے والوں میں کون کون شامل (شریک جرم) رہا۔ پشاور کی محبت کا چراغ دلوں میں روشن رکھے ہوئے اہل محبت اگر توجہ فرمائیں اور زیادہ نہیں تو پشاور کے باغات و سبزہ زاروں (شاہی باغ‘ وزیرباغ‘ جناح پارک اُور پنج تیرتھ) ہی کو اِن کی اصل حالت میں بحال کرنے کی تحریک چلائیں تو کم سے کم آنے والی نسلیں ہمیں ’بے حس (غفلت کے مرتکب افراد)‘ اور اُن مجرموں کے ساتھ کٹہرے میں کھڑا نہیں کریں گے‘ جنہوں نے پشاور کے وسائل کو اپنی آنکھوں کے سامنے لٹتے ہوئے دیکھا‘ ہاتھ سے روک نہ سکے اور زبان سے بھی خاموش رہتے ہوئے ایمان کے اُس تیسرے (نچلے) درجے پر بھی فائز نہیں تھے کہ کم سے کم پشاور سے ہونے والی خیانت کو دل ہی سے بُرا سمجھتے! سیاسی مصلحتیں‘ ذاتی مفادات اور مجبوریاں اپنی جگہ لیکن پشاور کے واجب الادا¿ حقوق کا احساس اور اِن کی ادائیگی بھی یکساں ضروری ہے۔ بقول پشاور ”یہ حقیقت ہے کہ احباب کو ہم .... یاد ہی کب تھے جو‘ اَب یاد نہیں (ناصر کاظمی)“