پشاور شہر سے نکاسی¿ آب کے 2 ذرائع (شاہی کٹھہ اور نہری نظام) کی توسیع‘ مرمت‘ بحالی اور متبادل انتظامات کی ضرورت ایک عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے اور اِس کام کےلئے جس قدر زبانی کلامی پیشرفت اب تک ہوئی ہے اگر اُس کا عشرِعشیر بھی عملاً ہوا ہوتا تو آج برسرزمین صورتحال قطعی مختلف ہوتی۔ توجہ طلب ہے کہ اہل پشاور فریاد کرتے ہوئے عدالت تک بھی جا پہنچے ہیں اور اِس بارے میں کئی عدالتی احکامات (فیصلے) موجود ہیں بالخصوص عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) کا پہلا فیصلہ جو دسمبر 2017ءمیں سامنے آیا تھا اور جس میں نہ صرف پشاور شہر بلکہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں موجود نہری نظام کو بہتر بنانے کے لئے قلیل مدتی اور طویل مدتی (الگ الگ) حکمت عملیاں بنانے کا حکم دیا گیا تھا اپنی جگہ سرد خانے کی نذر ہے ‘ کسی ایک سیاسی دور حکومت میں شروع کئے جانے والے منصوبے (حکومتی ترجیحات) دوسرے دور حکومت میں قابل عمل نہیں سمجھی جاتیں اور طویل المدت کی بجائے قلیل مدت حکمت عملیوں پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کا دوسرا حکمنامہ (فیصلہ) خاص پشاور سے متعلق تھا جو 22 ستمبر 2020ءکے روز صادر ہوا۔ جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس محمد ناصر محفوظ پر مشتمل بینچ نے محکمہ¿ انہار کے فیصلہ سازوں کو طلب کیا‘ سخت سرزنش کی اور حکم دیا کہ وہ پشاور شہر کی حدود میں نہروں کی صفائی سے متعلق اپنی کارکردگی اور ضمنی امور میں بہتری لائیں اور اِس بارے میں اپنی ماہانہ کارکردگی کی روداد (رپورٹ) سے عدالت کو باقاعدگی سے آگاہ کرتے رہیں۔ معلوم نہیں کہ اِس حکمنامے پر بھی عمل درآمد ہو رہا ہے یا نہیں۔ اگر عمل درآمد ہو بھی رہا ہو تو سرکاری محکمے ایسی رسمی خط و کتابت کرنے کے ماہر ہوتے ہیں‘ جن میں غلطی یا غفلت ظاہر ہونے کی صورت بھی اُن پر گرفت نہیں کی جا سکتی۔ لائق غور ہے کہ عدالتی فیصلے میں اِس بات کا ذکر بھی کیا گیا کہ بعض بااثر افراد نہروں کی صفائی اور اِن سے متعلق امور بارے حکومتی فیصلوں (حکمت عملیوں) کی راہ میں حائل ہو رہے ہیں۔ وہ لوگ (کردار) کون ہیں جن کے ذاتی مفادات پشاور پر حاوی ہیں‘ اِس بارے بھی اہل پشاور جاننے کا پورا حق رکھتے ہیں۔ خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ بائےس ستمبر دوہزاربیس کے روز عدالت عالیہ کے مذکورہ بینچ نے جس ایک بات پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا کہ پشاور شہر میں نکاسی¿ آب کے لئے اُن وسائل کا استعمال ہو رہا جو آبپاشی (زرعی مقاصد) اور آبنوشی کےلئے وضع کئے گئے تھے لیکن ناقص منصوبہ بندی اور عدم دلچسپی کے باعث وہ سبھی خوبیاں جو کبھی پشاور کا تعارف ہوا کرتی تھیں ایک ایک کرکے خرابیوں (مسائل) میں تبدیل ہو گئی ہیں! پھولوں کا شہر کہلانے والے ’پشاور‘ کی ’خرابی¿ قسمت‘ کے لئے ذمہ دار وہ سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز ہیں‘ جن کی ’اجتماعی غفلت‘ اور اہل پشاور کی ’اجتماعی لاتعلقی‘ نے حالات کو ناقابل یقین و برداشت حد تک خراب بنا دیا ہے۔واٹر اینڈ سینی ٹیشن سروسیز پشاور (WSSP) کی جانب سے پشاور شہر سے نکاسی¿ آب کے قدیمی نظام (شاہی کٹھہ) کی صفائی اور کشادگی و بحالی کے لئے متعلقہ بلدیاتی اداروں (ضلعی حکومت اور ٹاو¿ن ون انتظامیہ) سے طلب کردہ تجاویز کی روشنی میں جو حکمت عملی وضع کی ہے اُس کے سیاسی و سماجی اثرات (رکاوٹیں) لائق توجہ ہیں‘ جن کے سامنے ’غیراعلانیہ‘ ہار مان لی گئی ہے کیونکہ ایک تو وافر مقدار میں مالی وسائل دستیاب نہیں اور دوسرا نکاسی¿ آب کا متبادل نظام نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی قسم کا خلل زیادہ بڑے مسئلے کو جنم دے گا۔ شاہی کٹھہ ہو یا ٹریفک کی روانی‘ پشاور کا بنیادی مسئلہ تجاوزات ہیں جبکہ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ تجاوزات کا سلسلہ قیام پاکستان کے بعد وقفوں وقفوں سے جاری رہا۔ وہ دکانیں جو کسی زمانے میں بلدیہ پشاور نے ایک ہزار روپے فی دکان کے حساب سے فروخت کی تھی اب اُن کے مالکان ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے معاوضہ مانگ رہے ہیں جبکہ اجارے (لیز) پر دی جانے والی دکانوں کا تحفظ کرتے ہوئے انجمن تاجران کی جانب سے متبادل دکانیں فراہم کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ یہ دونوں مطالبات اپنی جگہ (فطرت میں) اس قدر کثیرالجہتی ہیں کہ اِن پر عملدرآمد کے لئے اربوں روپے درکار ہیں اور یوں شاہی کٹھے کو اُس کے حال پر چھوڑنے کے سوا کوئی دوسرا قابل عمل حل دکھائی نہیں دے رہا اس وقت پشاور اُس نہج پر آکھڑا ہوا ہے کہ اب مسائل کی گرداب سے نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ اہل پشاور کی ذہانت اور توجہ پر بھروسہ کرتے ہوئے غوروخوض کے لئے لقمہ پیش خدمت ہے کہ کیا پشاور شہر سے منتخب ہونے والے شہر ہی کی حدود میں قیام پذیر ہیں اگرچہ اُن کے شناختی کارڈوں پر اندرون شہر کے ایڈریسز رقم ہوں لیکن ایسے بہت سے کردار ملیں گے جو پشاور کے غم میں ہلکان آہ و فغاں کریں گے لیکن اُنہوں نے شہر سے اپنے آبائی تعلق کو توڑ رکھا ہے۔ اِسی تجاہل عارفانہ کے سبب نہ تو اہل پشاور کی مادری زبان نئی نسل کو منتقل ہو رہی ہے اور نہ ہی اُس تہذیب و ثقافت اور خوبیوں کی کماحقہ حفاظت ممکن ہو پائی ہے جس کا مرکزی نکتہ جنوب مشرق ایشیا کا قدیم ترین اور زندہ تاریخی شہر پشاور ہے۔