پشاور کہانی: معقول سے معقولیت تک۔۔۔

کراچی میں ’ڈرون کیمروں (drone cams)‘ اور ’گوگل میپ (google map)‘ کے ذریعے ٹریفک نگرانی کا تجرباتی آغاز لائق توجہ ہے ’تین ہزار سات سو اَسی‘ مربع کلومیٹرز رقبے پر پھیلے کراچی کے 7 اضلاع (وسطی‘ مشرقی‘ جنوبی‘ مغربی‘ کورنگی‘ ملیراور کیماڑی) کی مجموعی آبادی (سرکاری اعدادوشمار کے مطابق) قریب ڈیڑھ کروڑ ہے اور یہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا جبکہ دنیا کا ساتواں بڑا شہر ہے جہاں صرف آبادی ہی شہر کے وسائل پر بوجھ نہیں بلکہ خراب سڑکیں بھی ٹریفک کی روانی متاثر کرنے کا باعث ہیں تاہم سندھ حکومت کے فیصلہ سازوں نے سڑکیں مرمت اور بحال کرنے سے زیادہ آسان (معقول) حل یہی سمجھا کہ ٹریفک حکمت ِعملی میں ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ کیا جائے۔ کراچی میں ڈرون طیاروں سے ٹریفک نگرانی کا عمل اگرچہ تجرباتی اور محدود پیمانے پر ہے اور اِس ترقی یافتہ شکل میں مہنگی ترین ٹیکنالوجی پر مکمل انحصار ممکن نہیں جیسا کہ متحدہ عرب امارات اور کئی ترقی یافتہ ممالک میں دیکھنے کو ملتا ہے لیکن اگر ڈرون طیاروں کی بجائے ’کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن (CCTVs) کیمروں‘ پر انحصار بڑھایا جائے تو یہ ٹریفک کا بذریعہ ٹیکنالوجی ممکنہ‘ بہتر اور نسبتاً سستا حل ہوگا‘ جسے بیان کرنے کا مقصد یہ اطلاعات ہیں کہ خیبرپختونخوا کے فیصلہ ساز بھی کراچی کی دیکھا دیکھی ٹریفک کے لئے ڈرون طیاروں کے استعمال جانب متوجہ ہو رہے ہیں لیکن دست بستہ عرض ہے کہ 3780 مربع کلومیٹرز پر پھیلے کراچی کے مقابلے 215 مربع کلومیٹرز پر پھیلے پشاور کی ضروریات قدرے مختلف اور زمینی صورتحال قدرے آسان ہے۔ حکومتی اعدادوشمار کے مطابق پشاور کے شہری علاقے کی کل آبادی ”اُنیس لاکھ ستر ہزار بیالیس افراد“ پر مشتمل ہے جبکہ زمینی صورتحال یہ ہے کہ اندرون شہر کی چودہ یونین کونسلوں کی آبادی اِس سے دگنی دکھائی دیتی ہے لیکن گنجان آباد شہری حدود ٹریفک کی روانی برقرار رکھنے میں ٹریفک پولیس کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔ سڑکوں پر مستقل و غیرمستقل تجاوزات اور ٹریفک اہلکاروں کے مستقل و غیرمستقل تعینات نہ ہونے کی وجہ سے اندرون پشاور ٹریفک انتہائی بدترین اور خودکار انداز میں رواں دواں دکھائی دیتی ہے۔ مصروف شاہراو¿ں کو یک طرفہ ٹریفک کےلئے مخصوص کرنے اور یک طرفہ ٹریفک پر عمل درآمد کرنے کےلئے مختلف مقامات پر ’ٹائر بسٹرز (tyre buster)‘ نصب کئے گئے جس کا ناقابل یقین یہ نتیجہ سامنے آیا کہ کئی مقامات پر مصروف شاہراو¿ں پر نصب ’ٹائر بسٹرز‘ چوری کر لئے گئے ہیں یا پھر اُنہیں ناکارہ بنا دیا گیا ہے اور اِس بات کا نوٹس پشاور ٹریفک پولیس کے سربراہ نے بھی لیا‘ جنہوں نے ہدایات جاری کیں کہ ’ٹائر بسٹرز‘ کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بھی ملزم نہ تو شناخت اور نہ ہی نامزد ہوا ہے کہ اُسے گرفتار کر کے قانونی چارہ جوئی کا حسب حکم شوق پورا کیا جائے۔ توجہ طلب ہے کہ ایک ایسی صورتحال کہ جس میں پاکستان کے ایک شہر میں تو ٹریفک روانی برقرار رکھنے کےلئے ڈرون طیاروں کا استعمال ہو رہا ہے اور دوسری طرف ایک ایسا شہر (پشاور) ہے کہ جہاں ’ٹائر بسٹرز‘ تک چوری ہو رہے ہیں۔ نامعلوم افراد ٹریفک سگنلز اور ٹریفک بورڈ اکھاڑ لے جاتے ہیں۔ تو کراچی اور پشاور کا موازنہ غیرمنطقی ہے اور دونوں شہروں کےلئے ایک جیسی حکمت عملیاں ٹریفک سے جڑے مسائل کا حل ثابت نہیں ہوں گی البتہ 2 مشترکات ایسے ہیں کہ جن پر کراچی اور پشاور میں یکساں عمل درآمد ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ تجاوزات کا خاتمہ اور ٹریفک بارے غیرمستقل حکمت ِعملی۔ ٹریفک ایک رواں دواں مسئلہ ہے جس کا حل سکونی نہیں ہوسکتا۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پشاور کی ٹریفک پولیس نگرانی کے لئے ’کلوزسرکٹ کیمروں‘ پر انحصار کرے اور یہی کیمرے ’حد رفتار‘ کا احترام نہ کرنے والوں سے بھی نمٹنے میں مددگار و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ بنیادی بات قوت ِارادی کی ہے۔ اِرادہ موجود ہو تو اصلاح اور تبدیلی کا عمل ممکن و آسان ہو سکتا ہے لیکن جہاں اِرادہ ہی موجود نہ ہو اور جہاں نیت ہی میں فتور ہو وہاں بذریعہ ٹیکنالوجی بہتری نہیں لائی جا سکتی چاہے وہ ٹیکنالوجی کتنی ہی ذہین کیوں نہ ہو اور اُسے کتنی ہی باریک بینی اور تحقیق کے بعد ’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس)‘ سے لیس کرنے کا دعویٰ کیا جاتا ہو۔ یہ پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ جب تک عوام کے منتخب قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اَراکین اور بلدیاتی نمائندے کسی مسئلے کے حل میں عملاً دلچسپی نہیں لیں گے‘ اُس وقت تک ٹریفک کی روانی ہو یا پانی کی فراہمی‘ کوڑا کرکٹ اکٹھا کرنا ہو یا اِسے تلف کرنا‘ تجاوزات ختم کرنا ہوں یا تجاوزات قائم کرنے کے بارے رجحانات کی حوصلہ شکنی اور قانون و قواعد کے احترام (civic sense) سمیت شہری ترقی سے متعلق کوئی بھی ہدف حاصل نہیں ہوگا۔ چلتے چلتے ہم ایک ایسے مقام فکر تک آ پہنچے ہیں جہاں ٹیکنالوجی کو مسائل سے نجات کا باعث سمجھا جانے لگا ہے جبکہ سماج انسانوں سے بنا ہے اور سماجی ترقی کےلئے ضروری ہے کہ ہر خاص و عام (ہم عوام) کی تعلیم و تربیت اور شہری ذمہ داریوں سے متعلق شعور (زیادہ سے زیادہ) اُجاگر کیا جائے۔