ماں ،مادری وطن اور مادری زبان سے والہانہ محبت ایک فطری عمل ہے اگرکوئی شخص ا ن چیزوں سے انحراف کرتاہے تو اس کی شخصیت بھی متاثرہوگی مادری زبان شناخت ہوتی ہے، اور پاکستان جیسے کثیر القومیتی ملک میں یہ کلیہ تسلیم کرنے میں ناکامی کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیںہرزبان کو تحفظ کے ساتھ ساتھ اس کاجائزمقام دینا بھی ضروری ہوتاہے لیکن اپنی زبان سے محبت کسی اور زبان سے نفرت کی بنیاد پر ہرگزنہیں ہونی چاہئے ہمارے ملک کی تاریخ اس بات کی واضح عکاس ہے کہ کس طرح زبان آپ کی سیاسی قوت کی موجودگی یا عدم موجودگی کا فیصلہ کرتی ہے۔تقسیمِ ہند کے فوراً بعد اس وقت مرکزی حکومت کی جانب سے مشرقی پاکستان میں بھی اردو کو قومی زبان قرار دینے کے فیصلے نے بنگالی قوم پرست تحریک کی بنیاد ڈالی۔ستر کی دہائی کے اوائل میں سندھ میں سندھی اور اردو بولنے والوں کے درمیان فسادات ہوئے۔اگر ہم واضح سیاسی حقائق کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھی دیکھیں، تب بھی مقامی زبانوں، خاص طور پر چھوٹی اور پسماندہ برادریوں کی زبانوں کو، ان کا جائز حق دے کر ہم ثقافتی رنگارنگی کو محفوظ بناتے ہیں۔زبان لوگوں کی اجتماعی یادداشت کا خزانہ ہوتی ہے، ایک ایسی وراثت جو ایک لسانی گروہ کو دوسرے سے مختلف بناتی ہے۔وفاقی اور صوبائی سطحوں پر حکام اس معاملے میں اپنے فرائض سے غافل رہے ہیں۔ 2014 میں اسی مضمون پر ایک پارلیمانی دستاویز میں اس ملک میں بولی جانے والی 72 زبانیں گنوائی گئی تھیں، جن میں سے دس یا تو "مشکلات کا شکار ہیں"، یا "خاتمے کے قریب ہیں"سو بھلے ہی اس کام میں پانچ سال لگے ہوں، مگر خیبر پختونخواحکومت کی جانب سے علاقائی زبانوں کی ترویج و ترقی کے لیے پروموشن آف ریجنل لینگوئیجیز اتھارٹی ایکٹ 2012 کا نفاذ تاخیر کے باوجود بہتر اقدام ہے جس کے تحت سرکاری پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں میں ان علاقوں کی مقامی زبانیں بھی لازمی مضمون کے طور پر پڑھائی جائیں گی۔ ان زبانوں میں پشتو، ہندکو، سرائیکی اور کھوار شامل ہیں، جبکہ کوہستانی، جو خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے پانچ علاقائی زبانوں کی فہرست میں شامل ہے، وہ نصاب کا حصہ نہیں ہوگی کیوں کہ اس کے بولنے والوں کے درمیان اس کے لہجے پر اختلاف ہے اگر ہم اپنے صوبہ کی بات کریں تو ماہرین کے مطابق پاکستان کا ضلع چترال لسانی اعتبار سے دنیا کا سب سے زرخیز علاقہ ہے اور ایک چھوٹے سے ضلعے میں کم از کم دس مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔صرف چترال ہی نہیں، پاکستان کے بیشتر علاقے زبانوں کے لحاظ سے خاصے مالامال ہیں، جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں چار مختلف لسانی خاندانوں کی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہند یورپی (اردو، پنجابی، پشتو وغیرہ)، دراوڑی (براہوی)، چینی تبتی (بلتی)، جب کہ ہنزہ کی بروشسکی ایسی زبان ہے جو دنیا کی کسی اور زبان سے نہیں ملتی اس لیے لامحالہ اسے بھی ایک الگ خاندان قرار دینا پڑے گا۔ دوسری جانب یہاں عربی (افریقی ایشیائی خاندان) سمجھنے اور بولنے والے بھی لاکھوں میں ہیں۔پاکستان میں بولی جانے والی 74 میں سے درجنوں زبانوں کے سر پر معدومی کی تلوار لٹک رہی ہے۔۔ حکومتِ پاکستان کے پاس سرکاری سطح پر اس ضمن میں کوئی اعداد و شمار موجود نہیںان زبانوں کی شناخت، ترویج اور تحفظ کےلئے حکومتی سطح پر کیا کوششیں ہو رہی ہیں؟اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حالیہ مردم شماری میں پاکستان میں بولے جانے والی 74 میں سے صرف نو کی گنتی کی گئی ہے، جب کہ بقیہ 65 زبانوں کو 'دیگر' کے زمرے میں ڈال دیا گیا ہے۔ان زبانوں کے بولنے والوں کا کہنا ہے کہ مردم شماری میں ان زبانوں کی عدم شمولیت دراصل ان 'چھوٹی' زبانیں بولنے والوں کے حصے میں آنے والی محرومیوں کے عمل کا تسلسل ہے سرکار ی ذرائع کااس حوالہ سے کہناہے کہ مردم شماری فارم میں زبانیں بولنے والوں کی آبادی اور ان کی جغرافیائی نمائندگی پر توجہ دی گئی ہے، چنانچہ ہر صوبے سے دو زبانیں شامل کی گئی ہیں: بلوچستان سے بلوچی اور براہوی، سندھ سے سندھی اور اردو، پنجاب سے پنجابی اور سرائیکی، خیبر پختونخوا سے پشتو اور ہندکو، جب کہ کشمیر سے کشمیری شامل کی گئی ہے۔'ہمارے خیال سے ایک مسئلہ سیاسی بھی ہے۔ نظرانداز شدہ زبانیں بولنے والے تعداد میں کم اور ملک کے دور دراز علاقوں میں بکھرے ہوئے ہیں اس لیے ان کی سیاسی طاقت اتنی نہیں ہے کہ اقتدار کی اونچی دیواروں کے اندر ان کی شنوائی ہو سکے۔یہی وجہ ہے کہ سیاسی لحاظ سے طاقتور زبانوں کے نقارخانے میں ان زبانوں کی آواز سننے والا کوئی نہیںمادری زبانوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے پاکستان دنیا میں 28 ویں نمبر پر ہے جبکہ سب سے زیادہ 196زبانوں کو بھارت میں خطرات لاحق ہیںتاہم ایک اوررپورٹ کے مطابق بھارت میں گذشتہ ساٹھ برس کے دوران 250سے زائدزبانیں ختم ہوچکی ہیں امریکا کی 191 برازیل کی 190 انڈونیشیا کی 147 اور چین کی 144 زبانوں کی بقا کو خطرہ ہے۔یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ کوئی بھی زبان تنہا نہیں مرتی وہ اپنے ساتھ درجنوںلسانی خصوصیات ،تہذیبی ورثہ اور ابلاغ کابیش قیمت اثاثہ لے کر فوت ہوتی ہے ہمارے ہاں بعض زبانیں اپنے روشن مستقبل کی خاطر دوسری زبان اختیار کرکے کاروباری مواقع سے فائدہ اٹھانے کی روش کی بدولت بھی دم توڑتی جارہی ہیں یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بائیس کروڑ کی آبادی کے ملک میں سوائے چند ماہرین لسانیات کے کوئی بھی نہیںجانتاکہ پورے پاکستان میں کتنی زبانیں اوربولیاں رائج ہیں جہاں تک مادری زبان کاتعلق ہے تو اس کے تحفظ کی کوشش وہی لوگ کرسکتے ہیں جو اس زبان کے بولنے والے ہیں اورجواس کے علمی ذخائر کے امانتدار ہیں کوئی اور شخص یاسماج اس کی حفاظت کی ذمہ دار ی نہیں لے سکتاکیونکہ اگر زبانوں کی اہمیت کاشعور کسی شخص میں موجودتووہ اپنی مادری زبان کوبچانے کےلئے کچھ بھی کرے گا اگر کسی زبان کے لوگ خودہی اپنی زبان سے بیگانہ ہوجائیں یا اپنی زبان سے منہ موڑ کر کسی دوسری زبان کے ہوجائیں تو اس میں کسی اور کانہیں ان کااپناہی قصورہے لہذا اپنی زبان کو زندہ رکھنے کا فرض اس کے بولنے والے ہی نبھائیں گے کسی اور سے اس کی توقع حماقت کے سوا کچھ نہیںتاہم حکومت کو بھی اس حوالہ سے توجہ دینی ہوگی جبکہ میڈیا کاکردار بھی اس معاملہ میں مسلمہ ہے۔