اِنٹرنیٹ پر منحصر سماجی رابطہ کاری کے وسائل (سوشل میڈیا) سے متعلق عمومی تصور یہ ہے کہ اِس کے استعمال کرنے والوں کو کسی بھی قسم کی قانونی اور اخلاقی یا سماجی اقدار کا پابند نہیں ہونا چاہئے۔ سوشل میڈیا کی ’مادر پدر آزادی‘ کے حق میں دلائل دینے والے جن مغربی معاشروں کی مثالیں دیتے ہیں اور آزادی اظہار سے جڑی جس جمہوری خصوصیت کا ذکر کرتے ہیں‘ اُس کے ساتھ ذمہ داری اور اظہار رائے کی آزادی کے ساتھ دوسروں کی دل شکنی کرنے کو بھی اپنا پیدائشی حق سمجھ لیا جاتا ہے حالانکہ یہ بنا ثبوت الزام غیبت جبکہ غلط یا ناکافی ثبوتوں کے ساتھ الزام تراشی بہتان کے زمرے میں آتی ہے اُور اِن دونوں خصوصیت کی موجودگی میں کسی بھی معاشرے میں تعمیری اقدار پروان نہیں چڑھ سکتیں۔ سوشل میڈیا کے تیزی سے مقبول ہوتے وسائل اور اِن سے متعلق شکایات حل کرنے کے لئے 2016ءمیں لاگو کئے گئے ایک قانون ’پروینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016ئ‘ سے استفادہ کیا جاتا ہے تاہم سوشل میڈیا کی وسعت اور مختلف مزاج کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ قانون کے اندر ترمیمی شقوں کا اضافہ کیا گیا اور اِسے ”آن لائن کانٹینٹ رولز 2020ئ“ کہا جاتا ہے لیکن یہ ترمیمی قانون تاحال منظور نہیں ہوا اور اِس سے متعلق سوشل میڈیا صارفین اور سوشل میڈیا خدمات فراہم کرنے والے متعلقہ ملکی و غیرملکی اداروں کے ساتھ غوروخوض کا عمل جاری ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ سوشل میڈیا پر اظہار خیال کرنے والوں کے لئے خصوصی قانون ہونا چاہئے‘ تاکہ سماج میں اعتماد اور احترام کے رشتے برقرار رہیں اور چونکہ پاکستان صرف جمہوری نہیں بلکہ ایک اسلامی جمہوریہ ہے اِس لئے یہاں کے سوشل میڈیا صارفین اپنی آن لائن سرگرمیوں میں قومی نظریاتی تشخص‘ ساکھ اور وقار کو بھی مدنظر رکھیں۔سوشل میڈیا سے متعلق مجوزہ ترمیمی قانون پر غوروخوض کے جاری عمل میں تازہ ترین پیشرفت یہ سامنے آئی ہے کہ مختلف صارفین اور متعلقہ ملکی و غیرملکی اداروں (اسٹیک ہولڈرز) کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اٹارنی جنرل پاکستان نے سوشل میڈیا پر ’ناپسندیدہ مواد‘ کے جائزے کے لئے کونسل کے قیام کی تجویز سے اتفاق کر لیا ہے کیونکہ پاکستان میں سوشل میڈیا مواد کی نگرانی کے لئے کوئی دوسرا مناسب فورم (متبادل راستہ) موجود نہیں ہے۔ اِس سلسلے میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اُن اسٹیک ہولڈرز سے ایک ملاقات کی ہے جنہوں نے سوشل میڈیا سے متعلق قانون و قواعد وضع کرنے کی حکومتی کوششوں کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے اُور طویل قانونی کاروائی سے بچنے کے لئے حکومت نے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اٹارنی جنرل کی سوشل میڈیا اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ملاقات میں یہ رضامندی سامنے آئی جنہوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان سے اِس بارے میں بات کریں گے۔ اِس موقع پر سامنے آنے والی تجاویز میں اسٹیک ہولڈرز اور درخواست گزاروں نے سوشل میڈیا کے بارے میں موصول ہونے والی شکایات حل کرنے کے لئے صحافیوں‘ سول سوسائٹی اور ڈیجٹیل رائٹس ایکٹیوسٹس کے نمائندوں پر مشتمل کونسل کے قیام کی تجویز دی گئی تھی۔ اٹارنی جنرل نے حال ہی میں ’ریموول اینڈ بلاکنگ اَن لا فل آن لائن کانٹینٹ (پروسیجر‘ اوور سائٹ اینڈ سیف گارڈز) رولز 2020‘ کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران عدالت کے روبرو اِس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ سوشل میڈیا سے متعلق قواعد کا جائزے لینے کے لئے متعلقہ اداروں اور صارفین جن کی نمائندگی چند درخواست گزار کر رہے تھے سے ملاقات کریں گے۔ بہرحال حکومت کے لئے اپنا مو¿قف واضح کرنا آسان نہیں کیونکہ عدالت سے رجوع کرنے والوں نے اعتراض اٹھایا ہے کہ سوشل میڈیا سے متعلق حکومتی قواعد درحقیقت آئین میں دیئے گئے آزادی¿ اظہار سے متصادم ہیں اور یہ قواعد آن لائن کاروباری سرگرمیوں‘ معاش کے حقوق‘ تجارت اور پیشہ ورانہ آزادی کی خلاف ورزی کا باعث بنیں گے جو آئین کی مختلف شقوں (9اور 18) کے تحت دیئے گئے حقوق سے متصادم ہیں۔