جنوبی وزیر ستان میں اراضی کی ملکیت کے تنازعے پر دو متحارب قبائل کے درمیان کشیدگی اب باقاعدہ لڑائی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ وزیر زلی خیل اور دوتانی قبائل کے مابین مسلح تصادم میں اب تک6 افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوچکے ہیں۔جنوبی وزیرستان کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق کرکنڑہ کے مقام پر زمین کی ملکیت کے تنازعے میں وزیر زلی خیل اور دوتانی قبائل ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہوگئے اور ایک دوسرے پر بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری شروع کردی۔ ضلعی انتظامیہ کے مطابق شیرکانئی کے مقام پر کئی رہائشی مکانات بھی نذر آتش کردئیے گئے اور ان کے مکین کھلے آسمان تلے آگئے ہیں۔ضلعی انتظامیہ کی مذاکراتی ٹیم نے متحارب فریقوں میں فائربندی کی کوشش کی، تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکی۔ وزیرزلی خیل اور دوتانی قبیلوں کی یہ لڑائی اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ زرعی اراضی، راستے،جنگل اور پہاڑکی ملکیت پر قبائلی علاقوں میں درجنوں دشمنیاں چل رہی ہیں اور اب تک سینکڑوں افراد ان رقابتوں کی آگ کا ایندھن بن چکے ہیں۔ قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اگرچہ وہاں تمام سرکاری محکموں کے دفاتر قائم ہوچکے ہیں، لیویز اور خاصہ داروں کی جگہ پولیس نے لے لی، ہر قبائلی ضلع میں عدالتیں قائم ہوچکی ہیں لینڈ سیٹلمنٹ کے منصوبے بھی شروع کئے گئے ہیں۔ لیکن ان شہری سہولیات سے قبائلی علاقوں کے لوگ ہنوز نابلد ہیں اور وہ اب بھی بندوق کی نوک پر تنازعات کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں لیکن تاریخ گواہ ہے کہ خون خرابے، لڑائی جھگڑے، دنگا فساد اور جنگ و جدال سے اقوام کے درمیان تنازعات کبھی حل نہیں ہوتے۔ فریقین کو تصفیے کیلئے بالاخر مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے جہاں کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر تنازعات کا حل نکالاجاتا ہے۔ اگر لینڈ سیٹلمنٹ کا کام آج سے بیس تیس سال پہلے شروع کیاجاتا تو اراضی کی ملکیت کے تمام تنازعات اب تک حل ہوچکے ہوتے اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہوتا۔ ریاست کے اندر حکومت کی رٹ قائم کرنا سرکاری اداروں کی ذمہ داری ہوتی ہے تاہم ضم اضلاع میں سرکاری اداروں کے اپنے فرائض منصبی نبھانے کیلئے ماحول کو مزید سدھارناہوگا، دو سال پہلے تک قبائلی عوام کوجن مسائل، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا تھا۔ آج بھی ان مسائل میں خاطر خواہ کمی نہیں آئی۔ عوام کو آگاہی فراہم کرنے اور انہیں ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے تعلیم کا فروغ بنیادی ضرورت ہے۔ حالیہ سروے کے مطابق قبائلی علاقوں میں آج بھی خواندگی کی مجموعی شرح 32فیصد ہے جبکہ خواتین کی خواندگی کی شرح بیس فیصد سے بھی کم ہے۔ لوگوں کو اپنے قومی، علاقائی، مذہبی، معاشرتی اور اخلاقی فرائض اور حقوق سے آگاہ کرنے کا تعلیم ہی واحد ذریعہ ہے جس کوآج تک دانستہ طور پر نظر انداز کیاجاتا رہا۔فرنگی دور کے بدنام زمانہ قانون ایف سی آر کے حصار میں قید ایک کروڑ قبائلی عوام آج بھی ذہنی،، معاشی، معاشرتی اور سیاسی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ اور قہر درویش برجان درویش کے مصداق دوسروں کی مجرمانہ غفلت کی سزا خود کو دے رہے ہیں۔معصوم قبائل کا یہ استحصال اب بند ہونا چاہئے۔ اور حکومت کو قبائلیوں کی جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ، معاشرتی مسائل اور تنازعات کے حل کیلئے اپنی رٹ ہر قیمت پر قائم کرنی چاہئے۔