قومی سطح پر ”یکساں نصاب ِتعلیم“ رائج کرنے کے انتظامات تکمیل کے جس مرحلے سے بھی گزر رہے ہیں اور یہ سنجیدہ کام جس قدر جلد از جلد مکمل ہو جائے اُتنا ہی بہتر ہوگا۔ خیبرپختونخوا کے بالائی علاقوں پر مشتمل اضلاع بشمول ہزارہ و مالاکنڈ ڈویژن کے کئی حصوں میں نئے تعلیمی سال کا آغاز ہو چکا ہے لیکن والدین کو نصاب تعلیم نہ خریدنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے اور کئی سکولوں نے تعطیلات کا اعلان کر دیا ہے کہ جب تک کسی نصاب تعلیم کا تعین نہیں ہوجاتا اُس وقت تک تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اِس ماحول میں سرکاری تعلیمی اداروں کے اساتذہ فکرمند نہیں کیونکہ اُن کے فیصلہ ساز وفاقی اور صوبائی حکومتیں جو حکم کریں گی اور جب حکم کریں گی وہ اُسے بجا لائیں گے جبکہ نجی تعلیمی اداروں کے منتظمین اور اساتذہ گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں جو سالہا سال سے ادنیٰ و اعلیٰ درجوں کیلئے چنیدہ نصاب ِتعلیم کا انتخاب خود کرتے رہے ہیں لیکن اِس مرتبہ صورتحال مختلف ہے۔قومی سطح پر ’یکساں نصاب تعلیم‘ رائج ہونا ’نجی تعلیمی اداروں‘ کے لئے 2 طرح سے پریشانی کا باعث ہے۔ ایک تو اساتذہ کو نئے نصاب کے مطابق تربیت دینا ہوگی اور دوسرا ہر طالب علم کیلئے بلاتاخیر نئی نصابی کتب حاصل کرنا بھی کسی چیلنج سے کم نہیں کیونکہ پورے ملک میں بیک وقت ایک ایسی طلب (مانگ) پیدا ہونے والی ہے جس میں ہر نجی ادارے کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنے ہاں زیرتعلیم طلبہ کیلئے نصابی کتب پہلے حاصل کرے۔ اگرچہ تعلیمی ادارے اپنے مالیاتی امور اور مفادات کیلئے ایک نمائندہ تنظیم کے پلیٹ فارم پر ایک ہیں لیکن نصاب تعلیم کی تکمیل اور بہتر نتائج ظاہر کرنے کیلئے اِن درسگاہوں کے درمیان مقابلے کی فضا بنی رہتی ہے اور یہ ایک دوسرے پر برتری حاصل کرنے کیلئے تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔ یکساں قومی نصاب کی ضرورت بھی اِسی ’مقابلہ بازی‘ کی وجہ سے محسوس کی گئی کیونکہ ایک دوسرے سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی لگن میں نجی اداروں نے 29 اقسام کے نصاب تعلیم مرتب کر لئے تھے اور یہ رجحان اِس قدر عام ہوا کہ غیرملکی اشاعتی اِدارے نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا فیصلہ کیا اور نصابی کتب شائع کرنا شروع کیں جو اُن نجی سکولوں میں بصدشوق و اہتمام پڑھائی جاتی ہیں جہاں والدین سکول کی ماہانہ فیس سے ہزاروں روپے کی نصابی کتب خریدنے کی مالی سکت رکھتے ہیں۔ صوبہ پنجاب نے نجی اشاعتی اداروں پر نصاب کی کتب شائع کرنے کی پابندی عائد کر دی ہے اور صرف نصاب کی کتب ہی نہیں بلکہ درس و تدریس کے عمل میں استعمال ہونے والی دیگر معاون کتب کی اشاعت پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ یقینا صرف یکساں نصاب تعلیم تشکیل اور لاگو کرنا ہی ضروری نہیں بلکہ اشاعتی اداروں کی جانب سے کتب کی قیمتیں بڑھانے پر بھی نظر رکھنی چاہئے اور اِس سلسلے میں صوبہ پنجاب نے پرنٹنگ ہاؤسز کیلئے جس اجازت نامے کو نصابی کتب کی اشاعت سے قبل لازم قرار دیا ہے اُس پر خیبرپختونخوا کو بھی عمل کرنا چاہئے کہ جس طرح قومی سطح پر یکساں نصاب تعلیم ضروری ہے بالکل اِسی طرح قومی سطح پر یکساں نصاب تعلیم کی اشاعت اور اِس کی قیمتوں کا تعین بھی ضروری ہے۔ یکساں نصاب تعلیم رائج ہونے کے ابتدائی چند ماہ کتب کی مانگ میں اضافہ رہے گا‘ جسے زیادہ سے زیادہ اشاعت کے ذریعے پورا کیا جاسکتا ہے اور اگر پہلے مرحلے میں زیادہ سے زیادہ اشاعتی اداروں کو نصابی کتب میں سرمایہ کاری کی طرف راغب کیا جائے تو اِس سے مقابلے کی فضا پیدا ہوگی اور کتب کی قیمتیں کم اور معیار بہتر میسر آئے گا لیکن اگر پابندی عائد رہی تو کتب کی قیمتیں اور معیار دونوں پر سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ پنجاب کی طرز پر خیبرپختونخوا ٹیکسٹ بک بورڈ کو بھی تمام نصابی کتب آن لائن فراہم کرنی چاہیئں اور اِس سلسلے کتابوں کے آن لائن مختلف فارمیٹس پر توجہ دینی چاہئے تاکہ تدریسی عملے کیلئے کتب کا حصول باآسانی و باسہولت ممکن ہو سکے۔ کورونا وبا کی وجہ سے مجبوراً ’آن لائن‘ وسائل پر بھروسہ کرنا پڑا جس کیلئے اساتذہ تیار نہیں تھے سب نے یہی سمجھا کہ کورونا وبا چند ہفتوں یا زیادہ سے زیادہ چند مہینوں کی بات ہے جو کہ خام خیالی تھی اور اب بھی اِس سلسلے میں خاطرخواہ سنجیدگی و آمادگی نہیں پائی جاتی کہ آن لائن تعلیم کی اہمیت اور ضرورت کا اِحساس کیا جائے۔ قومی سطح پر یکساں نصاب ِتعلیم کے ساتھ یکساں ’آن لائن تعلیم‘ کے قواعد و ضوابط اور سہولیات کا فروغ بھی ضروری ہے۔