دنیا کے جتنے بھی ترقی یافتہ ممالک ہیں، ان کی ترقی میں وہاں کی تعلیمی پالیسی کا کلیدی کردار رہا ہے۔ ا ن ممالک میں بالخصوص بنیادی تعلیم کو مستحکم کرنے کیلئے مسلسل انقلابی اقدامات بھی کئے جاتے رہے ہیں اور تغیرِ زمانہ کے تقاضوں کو کما حقہ پورا کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے لیکن ہمارے ملک میں تعلیمی پالیسیاں اگر بنیں بھی تو اس کے نفاذ کی مخلصانہ کوشش نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اب تک تجربوں کے دور ہی سے گزر رہے ہیں۔ یہاں اس حقیقت کا اظہار بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک میں پرائمری تعلیم مادری زبان ہی میں دی جاتی ہے لیکن ہمارے یہاں اس پر عمل نہیں ہوا قیام پاکستان سے قبل توچلوہم غلام تھے اور انگریزی حکومت چاہتی تھی کہ وہ اپنی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے دفتری بابو پیدا کرے، اس کیلئے میکالے کی تعلیمی پالیسی اپنائی گئی لیکن المیہ یہ ہوا کہ آزادی کے بعد بھی مادری زبان کے ذریعہ پرائمری تعلیم کو استحکام نہیں بخشا گیابلکہ نجی سکولوں کا جال بچھنے کے بعد انگریزی کا زور بڑھنے لگا انگریزی زبان پڑھنی چاہئے لیکن اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ ہم اپنی تہذیبی وراثت کے امین مادری اورقومی زبان سے نابلد ہو جائیںکیوں کہ دنیا کے تمام ماہرین تعلیم کااس بات پر اتفاق ہے کہ بچوں کا نوخیز ذہن کسی بھی علم کو اپنی مادری زبان میں دوسری زبان کے مقابلے آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرسید جیسے ہمارے اکابرین نے مادری زبان کے ذریعہ تعلیم کو فروغ دینے کی وکالت کی ہے لیکن ہم نے ان کے تعلیمی نظرئیے کوپسِ پشت ڈال دیا۔ نتیجہ ہے کہ آج ملک میں پرائمری تعلیم کا ڈھانچہ متزلزل ہو کر رہ گیا ہے۔ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری تنظیموں کی رپورٹ سے یہ پتہ چلا ہے کہ پرائمری سطح کے بچے ایک طرف اپنی مادری زبان سے نابلد ہوتے جا رہے ہیںتو دوسری طرف دیگر زبانوں کے معاملے میں بھی ان کی پسماندگی ظاہر ہو رہی ہے۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اگر ملک میں پرائمری تعلیم کو مستحکم کرنا ہے تو مادری زبان کے ذریعہ تعلیم دینے کی وکالت کی جائے تاکہ ہمارے بچوں کے اندر فہم وادراک کی قوت پیدا ہوسکے اور وہ کسی بھی موضوع میں اپنی استعداد پیدا کر سکیں۔زبان کے مسئلہ کی وجہ سے ہی ہمارے بچے موضوعاتی اعتبار سے کمزور ہورہے ہیں۔ ایسی صورت میں ملک کے تعلیمی نظام میں ایک بڑے انقلاب کی ضرورت ہے اور اس کیلئے تمام تر ازم اور مفاد سے اوپر اٹھ کر قدم اٹھانا ناگزیر ہوچکاہے۔ ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ عصرِ حاضر میں معیاری تعلیم کی کیا اہمیت ہے۔ سچائی تو یہ ہے کہ روز اول ہی سے معیاری تعلیم کی اہمیت اور افادیت مسلّم رہی ہے لیکن اب گلوبلائزیشن کے بعد مقابلے میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ شرح آبادی میں اضافے کی وجہ سے ملازمت حاصل کرنے کا مقابلہ بھی سخت ہوا ہے ۔ اسلئے اب تعلیمی شعبے میں ایک بڑے انقلاب کی ضرورت ہے کہ ہم عالمی پیمانے کو سامنے رکھیں اورپرائمری سطح ہی سے تعلیمی نظام کو درست کریں کہ جب تک ہماری بنیادی تعلیم کا ڈھانچہ مستحکم نہیں ہوگا، اس وقت تک ہم اپنے اعلیٰ تعلیم کی عمارت کو بلند نہیں کر سکتے۔ آج اعلیٰ تعلیم کے معیار پر بھی طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں بالخصوص تحقیق کے معاملے میں ہماری پستی باعثِ شرمندگی بن گئی ہے کہ گزشتہ کئی برسوں میں ہم نے کوئی ایسا سائنسدان پیدا نہیں کیا ہے جو دنیا کیلئے مثال بن سکے۔ مغربی ممالک کی طرح پرائمری اور ثانوی سکولوں کے اساتذہ کی بھرتی میں بھی اس بات کا خیال رکھا جائے کہ وہ تعلیمی پیشہ سے دلچسپی رکھتے ہیں یا نہیں کیو ںکہ ہمارے ملک میں بے روزگاری دور کرنے کیلئے حکومت کسی بھی شعبے میں صرف ملازمت دینے کی پہل کرتی ہے اسے اس سے غرض نہیں ہوتا ہے کہ بھرتی ہونے والا شخص اس شعبے کے لائق بھی ہے یا نہیں۔ شعبہ تعلیم کے تقاضے دیگر شعبوں سے مختلف ہیںیہاں کچے ذہن کو صحیح خطوط بخشنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں چھوٹا سا ملک فن لینڈ پرائمری تعلیم کے معاملے میں نمایاں ہے کیوںکہ وہاں کی حکومت پرائمری تعلیم کیلئے اساتذہ کے انتخاب میں کسی بھی سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر کام کرتی ہے۔ نتیجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں وہاں کا تعلیمی نظام مثالی بن گیا ہے۔ چھوٹے سے ملک بھوٹان میں بھی پرائمری تعلیم کا معیار تیزی کے ساتھ اسلئے بہتر ہو رہاہے کہ وہاں بھی فن لینڈ کی طرز پر پرائمری اور ثانوی اساتذہ کی بھرتی میں کسی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں اب بھی پرائمری اورثانوی درجے کے اساتذہ کی بھرتی کو محض بے روزگار ی دور کرنے کا ذریعہ سمجھا جا رہاہے اوریقینا یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔