ممکنہ قحط سالی اور ہماری پیش بندی۔۔۔

 محکمہ موسمیات نے ممکنہ خشک سالی کی وجہ سے ربیع کی فضل خراب ہونے اور گندم کی پیداوار میں کمی سے متعلق خبردار کیا ہے۔ محکمہ موسمیات نے خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے چند حصوں میں جاری خشک سالی کی صورتحال مزید خراب ہونے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ربیع کی فصلوں کےلئے پانی کی محدود فراہمی کی وجہ سے پیدوار میں کمی کا خدشہ ہے۔ اکتوبر 2020 سے جنوری 2021 تک ملک میں اوسط سے کم بارش کی وجہ سے خشک سالی پیدا ہوئی ہے۔اس کا سب سے زیادہ اثر خیبر پختونخوا کے بالائی اورجنوبی علاقوں، سندھ اور بلوچستان پر پڑسکتا ہے جہاں منفی 73.2 فیصد کم بارش ہوئی۔بلوچستان کے جن وسطی اور جنوبی اضلاع میں ہلکا قحط پڑسکتا ہے ان میں چاغی، گوادر، ہرنائی، کیچ، خاران، مستونگ، نوشکی، پشین، پنجگور، قلات، کوئٹہ اور واشک شامل ہیں۔جبکہ خیبر پختونخوا میں سوات، دیر بالا، دیر پائن، اپرچترال،لوئر چترال، ملاکنڈ، بونیر، شانگلہ،کوہستان، تورغر،بٹگرام،ٹانک، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں،خیبر، شمالی و جنوبی وزستان کے علاقے خشک سالی سے متاثر ہوسکتے ہیں ان علاقوں میں اوسطاً 40فیصد زرعی زمینیں آبی اور 60فیصد بارانی ہیں۔ جب بارش ہوگی تب ہی فصل کاشت کی جاسکتی ہے اور فصل کے پھلنے پھولنے کے امکانات ہوتے ہیں خشک سالی کے منفی اثرات نہ صرف زراعت بلکہ ڈیری کی صنعت پر بھی پڑسکتے ہیں سندھ کے جنوب مشرقی علاقوں میں قحط سالی کی کیفیت برقرار ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق اگرچہ یہ خطرناک صورتحال نہیں ہے لیکن یہ تجویز پانی کے انتظام اور زراعت سے متعلق سٹیک ہولڈرز کو کسی بھی ممکنہ نازک صورت حال سے باخبر رکھنے کےلئے ہے تاکہ وہ ضرورت کے مطابق پانی کے حصول اور تقسیم کے لئے پیشگی منصوبہ بندی کریں۔بارش معمول سے کم مقدار میں ہونا انسان کی دسترس سے باہر ہے۔زلزلوں، آندھی، طوفان اور سیلاب وہ قدرتی آفات ہیںجن پر انسان کا کوئی کنٹرول نہیں تاہم ان آفات کو دعوت دینے میں انسان کا اپنابھی ہاتھ ہوتا ہے۔ہم قدرتی ماحول کو تحفظ دینے میں ناکام رہے ہیں۔ جنگلات کی غیر قانونی اور بے دریغ کٹائی کا عمل بدستور جاری ہے۔جس کی وجہ سے جنگلی حیات کی نسلیں بھی معدوم ہونے لگی ہیں۔ ماحول کو آلودگی سے پاک کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ درختوں کو کاٹ کر سڑکیں بنائی جارہی ہیں زرعی زمینوں پر کنکریٹ کے پہاڑ کھڑے کئے جارہے ہیں۔ وادی کاغان، بٹگرام، کوہستان، گلگت بلتستان، سوات، دیراور چترال میں گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے سینکڑوں دیہات سیلاب برد ہوچکے ہیں چترال اور گلگت بلتستان میں ڈیڑھ سو گلیشئرز کو انتہائی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ جن کے پھٹنے کی صورت میں نہ صرف بھاری جانی نقصان کا اندیشہ ہے بلکہ بچ جانے والے ہزاروں لاکھوں افراد بے گھر ہوسکتے ہیں۔ گذشتہ دس سالوں کے دوران چترال میں گلیشئرز پھٹنے اور سیلاب سے ایون، جنجیریت کوہ، ارسون، دروش، چترال ٹاﺅن، دنین، ریشن، مژگول، کوشٹ، لون، سنوغراور کھوژ کے علاوہ وادی تورکہو اور وادی گرم چشمہ کے کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں اور سیلاب متاثریں اب تک در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔اب جبکہ مقدار سے کم بارشوں کی وجہ سے خشک سالی اور قحط جیسی صورت حال پیدا ہونے کے بارے میں خبردار کیاگیا ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوںاور متعلقہ اداروں کو پیش بندی کرنی چاہئے تاکہ ممکنہ قحط اور سیلاب سے جانی نقصانات سے بچاجاسکے۔قومی اور صوبائی سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کےلئے ادارے قائم کئے گئے ہیں۔ جن کا کام اب تک جانی و مالی نقصانات کے اعدادوشمار جمع کرنے اور متاثرین تک امداد پہنچانے کی خبریں جاری کرنے تک محدود ہے۔ ان اداروں کو قدرتی آفات سے بچنے اور آفات آنے کی صورت میں جانی و مالی نقصانات کی شرح کم سے کم رکھنے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ کروڑوں اربوں روپے کی لاگت سے قائم کئے گئے ان اداروں کاملک و قوم کو کچھ تو فائدہ ملے۔