میڈیکل کالج میں داخلے کے اُمیدوار سے 45 لاکھ روپے عطیہ طلب کرنے والے نجی میڈیکل کالج کے سربراہ کی ٹیلی فونک بات چیت بذریعہ سوشل میڈیا منظرعام پر آنے کے بعد پہلا ردعمل وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان کی جانب سے دیکھنے میں آیا جنہوں نے صوبائی محکمہ¿ صحت اور اعلیٰ تعلیم سے متعلقہ محکمے کو تحقیقات کرنے کا حکم دیا لیکن چونکہ میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کا انتظامی ادارہ ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ وفاقی ہے اِس لئے خیبرپختونخوا میں وفاق کے نمائندے ’گورنر شاہ فرمان خان‘ کی جانب سے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بائیس فروری کے روز خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے سربراہ کو ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ مذکورہ صوتی پیغام کی تحقیقات کریں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز داخلے کے خواہشمند طلبا و طالبات سے عطیات طلب کرتے ہیں اور اِن عطیات کی مد میں اِس قدر بڑی مالی رقم کا تقاضا کیا جاتا ہے جو میڈیکل کی کل تعلیم پر اُٹھنے والے اخراجات کے مساوی یا اُس کے نصف کے برابر ہوتی ہے لیکن صرف یہی ایک شکایت نہیں بلکہ داخلے کے خواہشمند طلبہ کی جانب سے 2 دیگر شکایات بھی سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں جن میں 1: چند نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کی جانب سے مکمل تدریسی اخراجات کی یکمشت ادائیگی کا مطالبہ کیا گیا اور 2: طلبہ کی قابلیت نہیں بلکہ اُن کی مالی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز نے اپنے حصے کے 20 نمبر دیئے ہیں‘ جن کی وجہ سے داخلوں کی حتمی فہرست میں طلبہ کے حاصل کردہ نمبروں کا شمار متاثر ہوا ہے۔ طلبہ کی جانب سے حکومتی اور پاکستان میڈیکل کمیشن کے فیصلہ سازوں کی توجہ اِس امر کی جانب مبذول کروائی گئی ہے کہ جن نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کو 20 نمبر دینے کا اختیار دیا گیا تھا اور جن کی خریدو فروخت بھی ہوئی ہے اور اِس کے نتیجے میں سامنے آنا والا میرٹ حقیقی ترجمانی نہیں کر رہا جس کی بنیاد پر نجی میڈیکل کالجوں نے داخلوں کو حتمی شکل دیدی ہے اور اِس سلسلے میں پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے یکم مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی ہے جس کے بعد کمیشن میں کسی بھی نئے ایڈمیشن کی رجسٹریشن نہیں کی جائے گی۔ نئے تعلیم سال 2020-21ءکے لئے میڈیکل و ڈینٹل داخلوں سے متعلق مذکورہ تینوں شکایات بارے طلبہ کی فریادمتعلق اگر وزیراعلیٰ اور گورنر خیبر پختونخوا نوٹس نہ بھی لیتے اور تحقیقات کے الگ الگ حکمنامے جاری نہ بھی کرتے تب بھی متعلقہ اداروں کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ طب کی تعلیم کے شعبے میں پائی جانے والی مبینہ کمزوریوں‘ خامیوں اور بدعنوانی ارتکابات و امکانات کا نوٹس لیتے کیونکہ ایسا کرنا اُن کی انتظامی ذمہ داریوں کا حصہ ہے۔ لائق توجہ امر ہے کہ وزیراعلیٰ ہاو¿س اور گورنر ہاو¿س پشاور سے جاری ہونے والی احکامات یک طرفہ ہیں یعنی اُن کا نشانہ صرف اور نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز ہیں جبکہ وہ وفاقی و صوبائی حکومتی ادارے جو داخلوں کے اِس پورے عمل کی نگرانی کر رہے ہیں اُن کے ذمہ داروں کے خلاف کسی بھی قسم کی کاروائی نہیں کی جا رہی حالانکہ وہ برابر کے شریک جرم ہیں۔ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں ہوئے داخلوں میں بے قاعدگیاں اِس لئے ہر سال سامنے آتی ہیں کیونکہ اِن بے قاعدگیوں کے امکانات موجود ہیں اور ہر سال طلبہ اور والدین کی جانب سے شکایات کو تحقیقات میں دفن کر دیا جاتا ہے لیکن داخلہ قواعد میں موجود سقم دور نہیں کی جاتیں۔ تو پہلی اور بنیادی ضرورت اُس نظام کو درست کرنےکا ہے جس میں خرابی کے لاتعداد امکانات موجود ہیں۔ دوسری اور بنیادی ضرورت سزا¿ و جزا¿ کی ہے کہ نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے نگران حکومتی اداروں کے ملازمین کے ذاتی مالی مفادات اُن پر حاوی ہیں جس سے پیدا ہونے والی عجیب و غریب صورتحال کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ خیبرپختونخوا کی طرح ملک کے دیگر حصوں میں حصوں میں بھی کئی ایسے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز ہوں گے جو متعلقہ منتظم سرکاری ملازمین کو باقاعدگی سے تحفے تحائف اور بیرون ملک دوروں کی صورت میں فائدہ پہنچاتے ہیں اور ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں نجی میڈیکل کالجوں میں درسی‘ تدریسی اور عملی تعلیم کی سہولیات کی کمی بیشی کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو تحلیل کرنے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ ’پی ایم ڈی سی‘ کے قواعد و ضوابط اِس قدر لچک دار تھے کہ اُن سے صرف اور صرف نجی میڈیکل کالجوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا تھا اور یہ الگ موضوع ہے لیکن اشارتاً نجی میڈیکل کالجوں کے قیام کی اجازت اور اِن کے قیام کی صورت سرمایہ کاری کے بہتر (مثبت) پہلو بھی ہو سکتے لیکن اگر فیصلہ سازوں کے سامنے اپنی ذات کی بجائے قومی اور عوامی مفاد ہوتا۔توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں طب کی تعلیم سے متعلق موضوعات میں صرف نئے تعلیمی سال میں داخلہ حاصل کرنا ہی متنازعہ نہیں بلکہ پانچ سالہ میڈیکل اور چار سالہ ڈینٹل کی تعلیم کے دوران ہونے والے سالانہ امتحانات سے متعلق بھی کئی ایک مسائل حل طلب ہیں اور اِس سلسلے میں ایک مقدمہ سندھ ہائی کورٹ میں زیرسماعت بھی ہے جس کی جانب سے ’میڈیکل کمیشن‘ سے آج وضاحت طلب کی گئی کہ کیا یہ فیصلہ میڈیکل کالجز یا یونیورسٹیز کی صوابدید پر چھوڑا جا سکتا ہے کہ وہ مقررہ حد سے زیادہ مرتبہ امتحانات میں ناکام ہونے والے طلبہ کو دوبارہ امتحان کی اجازت دے سکتے ہیں اور کیا ایسے طلبہ کی ’پی ایم سی‘ رجسٹریشن بھی بحال کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اِس مذکورہ مقدمے اور سماعت سے متعلق تفصیلات الگ سے بیان کی جائیں گی کہ کس طرح طب کی تعلیم کے دوران طلبہ کو اِس لئے مزید تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جاتا ہے کیونکہ وہ گزشتہ برس کے امتحانات میں کامیابی کی بار بار کوشش کرنے کے باوجود بھی خاطرخواہ ’پاسنگ مارکس‘ حاصل نہیں کر پائے۔ طب کی تعلیم سے متعلق ایک اور بالکل الگ اور زیادہ وسیع موضوع نصاب تعلیم کا ہے‘ جس میں بہتری‘ جدت اور اصلاح کی کوششیں صرف نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجوں ہی کے لئے نہیں بلکہ سرکاری کالجوں کے لئے بھی دردسر بنی ہوئی ہیں۔ القصہ مختصر اب تک ’پی ایم ڈی سی‘ اور بعدازاں ’پی ایم سی‘ کے پلیٹ فارم سے پاکستان میں طب کی تعلیم کے بارے میں جتنے فیصلے بھی ہوئے ہیں‘ وہ سب کے سب کسی نہ کسی مرحلے پر ناکام یا ناکافی ثابت ہوئے ہیں اور ایسا ہونے کی بنیادی وجہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کا نہ ہونا ہے۔