پارٹی منشور پر عملدرآمد کا فقدان۔۔۔

خیبر پختونخوا اسمبلی کے حلقہ پی کے 63کے ضمنی انتخابات میں مخالف امیدوار کی طرف داری کے الزامات میں صوبائی وزیرآبپاشی اور وزیردفاع پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک سے وزارت کا قلمدان واپس لے لیاگیا۔صوبائی وزراءکا موقف ہے کہ وزیرآبپاشی نے اپنے بیٹے کو ٹکٹ نہ دینے پر مسلم لیگ کے امیدوار کے حق میں انتخابی مہم چلائی۔اپنے بھائی پرویز خٹک کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے بھی انہوں نے بطور انتقام پارٹی کو نقصان پہنچایا۔دوسری جانب اس حلقے سے ہارنے والے پی ٹی آئی کے امیدوار نے انتخابی نتائج کو چیلنج کردیا ہے۔ تحریک انصاف کے باغی رکن اور برطرف صوبائی وزیر لیاقت خٹک کا موقف ہے کہ حکومت اپنی ناکامی چھپانے کے لیے ضمنی الیکشن کی شکست کا ملبہ مجھ پر ڈال رہی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کی وزارت کے اختیارات اور فنڈز غیر منتخب لوگ استعمال کرتے تھے وہ بے دست و پا وزیرتھے۔ اس کی شکایت تحریری طور پر وزیراعلیٰ سے کی تھی اور وزیراعظم سے بھی ملاقات کا وقت مانگا تھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بڑے بھائی پرویز خٹک کی سیاست سے اختلاف ہوسکتا ہے مگر وہ ذاتی طور پر کرپٹ نہیں۔مجھ کو سنے بغیر وزارت سے برطرف کرنا زیادتی ہے۔ صوبائی حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار نے نہیں، بلکہ خود پی ٹی آئی والوں نے زحکومتی امیدوار کو ہرایا ہے۔رائے عامہ کے جائزوں اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی رائے بھی یہی تھی کہ نوشہرہ کے ضمنی انتخاب میں پی ٹی آئی کا امیدوار ہارٹ فیورٹ ہے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کی حمایت کے باوجود مسلم لیگ ن کے امیدوار کی کامیابی کا امکان بہت کم تھا۔پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کے الزام میں اپنے وزیر کو عہدے سے ہٹانے کا تحریک انصاف کی قیادت کا فیصلہ جرات مندانہ اور عین جمہوری ہے۔ پی ٹی آئی اس سے قبل بے قاعدگیوں کے الزامات پر اپنے سیٹنگ وزیر اور گذشتہ سینٹ الیکشن میں ووٹ فروخت کرنے کے الزام میں 20اراکین صوبائی اسمبلی کو پارٹی سے نکال چکی ہے تاہم یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ پی ٹی آئی کی صفوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو صرف اپنے ذاتی مفادات کے لئے عمران خان کی ٹیم میں شامل ہوئے ہیںجب بھی وہ اپنے مفادات حاصل کریں گے پی ٹی آئی سے اپنا راستہ الگ کریں گے اور اقتدار تک پہنچنے کے نئے راستوں کی تلاش میں نکل پڑیں گے۔ سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ اور ووٹوں کی خرید و فروخت کا اب تک جاری گھناﺅنا کاروبار اور بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے اس کاروبار کی حمایت میں خم ٹھونک کر میدان میں آنا ہمارا سیاسی المیہ ہے۔ سیاسی جماعتوں میں اختلاف رائے فطری امر ہے یہی جمہوری نظام کا حسن ہے۔ اختلافی معاملات پر بحث کے بعد ہی کسی متفقہ فیصلے تک پہنچا جاسکتا ہے۔ اور افہام و تفہیم کے ذریعے اختلافات کو اتفاقات میں تبدیل کیاجاسکتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں سیاسی اختلاف کو دشمنی کا رنگ دیا جاتا ہے۔ یہی کچھ نوشہرہ کے ضمنی انتخابات میں دیکھنے میں آیا۔موروثی سیاست کا خاتمہ، اداروں میں اصلاحات، وی آئی پی کلچر کا تدارک اور کرپشن کو جڑسے ختم کرناپاکستان تحریک انصاف کے منشور کے اہم نکات ہیں۔ پارٹی کا منشور دیگر روایتی سیاسی جماعتوں سے مختلف ہونے کی وجہ سے ہی عوام نے اسے مینڈیٹ دیا ہے۔ حکومت کا سارا زور کرپشن کا خاتمہ اور اداروں میں اصلاحات پر مرکوز ہے تین سال کا عرصہ گذرنے کے باوجود وی آئی پی کلچر اور موروثی سیاست کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔