طب کی تعلیم سے متعلق فیصلہ سازی اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزیوں سے پیدا ہونے والی صورتحال کے حوالے سے وزیراعلیٰ اور گورنر خیبرپختونخوا کی جانب سے اَلگ اَلگ تحقیقات کے اَحکامات جاری ہونے کے باوجود متعلقہ نگران اِدارے کی جانب خاطرخواہ تیزی و دلچسپی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آ رہا اور تحقیقات کرنے والوں نے خط و کتابت کے ایسے سلسلے کا آغاز کر دیا ہے جس سے حاصل ہونے والے کوائف کی جانچ پڑتال کرنے میں مزید کئی ہفتے یا مہینے نہیں بلکہ سال لگ جائیں گے!معاملہ تکنیکی ہے کہ داخلہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور اِسے اگر قواعد و ضوابط ہی کی کسوٹی پر رکھتے ہوئے جانچ پڑتال کی جائے تو فوری نتائج برآمد ہونا ممکن ہیں۔ دوسری اہم بات اگلے برس (2021-22ئ) کے داخلوں بارے سوچنے کی ہے‘ جس کے لئے ابھی سے منصوبہ بندی کرنی چاہئے اور ایسا آن لائن نظام متعارف ہو کہ جس میں داخلے براہ راست کروائے جا سکیں۔ سردست پیدا ہوئی صورتحال یہ ہے کہ داخلوں میں بے قاعدگی کا ارتکاب ایک تعلیمی ادارے نے کیا‘ جس سے متعلق تحقیقات کو اجتماعی طور پر داخلوں سے الگ رکھنا چاہئے اور اگر کسی نتیجے پر پہنچنا ہی ہے تو اِس کےلئے ضمنی تحقیقات کا آغاز کیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے دیگر تمام میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں میں ہوئے داخلوں کی جانچ پڑتال ممکن ہے لیکن داخلے کےلئے عطیہ طلب کرنے کا ایک واقعے کا پورے داخلہ بندوبست سے تعلق نہیں بنتا جسے ’زیب ِداستان‘ کےلئے غیرضروری طور پر طول دیا جا رہا ہے اور اِس سے وہ طلبہ بھی پریشانی سے دوچار ہیں جن کے داخلے نجی کالجز میں کنفرم ہو چکے ہیں۔ اُنہوں نے فیسیں ادا کر دی ہیں لیکن داخلوں پر جانچ پڑتال جیسی تلوار اُن کے سروں پر لٹک رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ بائیس فروری کے روز گورنر خیبرپختونخوا کی جانب وائس چانسر خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے نام مراسلہ (No:II/GS/6(10)6/2010/2981-84) جاری ہونے کے بعد بائیس فروری ہی کے روز وائس چانسلر کے دفتر سے مراسلہ (No.KMU(E)/12-32/2021/763) کے ذریعے تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے 23 فروری کے روز خیبرپختونخوا کے سبھی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کے سربراہوں اور منتظمین کو تحریری طور پر ایک چھٹی حوالہ نمبر (KMU(E)12-32/2021/792) جسے ”اِنتہائی فوری (موسٹ ارجنٹ) قرار دیتے ہوئے مختف کوائف طلب کئے ہیں۔ 1: پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے مقرر کردہ داخلہ فیس برائے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کیا مقرر کی گئی تھی؟ 2: پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے داخلوں کےلئے اہلیت کا پیمانہ کیا تھا جس کے تحت 80فیصد نمبروں کا تعین میڈیکل کمیشن جبکہ طلبہ کی اہلیت کےلئے 20نمبروں کا اِختیار (تعین) نجی اِداروں کو دیا گیا۔ طے شدہ فارمولے کے مطابق 50فیصد نمبر ’ایم ڈی کیٹ اور 30فیصد نمبر ’ایف ایس سی‘ میں حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر اخذ کئے جانے تھے۔ 3: نجی کالجوں سے وہ فہرستیں طلب کی گئی ہیں جن میں اُنہوں نے طلبہ کو انٹرویوز کےلئے طلب کیا تھا۔ 4: انٹرویو کے لئے حاضر ہونے والے تمام طلبہ کی فہرستیں اور اُنہیں دیئے گئے نمبروں کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ 5: طلبہ کی جانب سے ادا کی گئی داخلہ فیسوں کی بینک رسیدوں کی نقول فراہم کی جائیں اور 6: جن بینک اکاو¿نٹس میں داخلہ فیسیں وصول کی گئی ہیں اُن میں آمدن و اخراجات کی تفصیلات یکم جنوری دوہزار اکیس سے بائیس فروری دوہزار اکیس تک ادا کی جائیں۔ پاکستان میں طب کی تعلیم سے متعلق بندوبست میں رواں برس (2020-21ئ) پہلی مرتبہ نجی نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کو یہ اختیار دیا گیا کہ داخلے کے خواہشمند اُمیدواروں کو ”20 نمبر“ دے سکتے ہیں۔ اِس رعایت و اختیار سے کلاس دہم (میٹرک) میں حاصل کردہ نمبروں کو اہلیت (میرٹ) سے الگ کر دیا گیا جبکہ سرکاری کالجوں میں میٹرک کے نمبر بھی شمار کئے گئے۔ نجی اداروں کو بیس نمبروں جیسا غیرمعمولی اختیار دینے سے ایک ایسی صورتحال پیدا ہوئی‘ جس نے نہ صرف اہلیت کے خصوصی امتحان (ایم ڈی کیٹ) کو بے معنی بنا کر رکھ دیا بلکہ ایف ایس سی میں حاصل کردہ نمبروں کی بھی خاطرخواہ اہمیت باقی نہ رہی۔ میڈیکل کمیشن کے فیصلہ سازوں کو یقینا بیس نمبروں سے متعلق اپنے فیصلے پر شرمندگی ہو گی جس نے رواں برس داخلے کے عمل کو بُری طرح متاثر کیا۔ اِس مرتبہ دوسری غیرمعمولی صورتحال یہ سامنے آئی کے داخلہ اہلیت کے طور پر طلب کئے جانے والی عطیات (ڈونیشنز) جو اِس سے قبل تصوراتی تھا ثبوتوں کے ساتھ سامنے آیا ۔ اب بہت ضروری ہوگیا ہے کہ طب کی تعلیم‘ اِس کے تعلیمی بندوبست بشمول داخلہ فیسوں اور داخلہ کے طریقہ¿ کار بارے غور کیا جائے جو اصلاحات کا متقاضی ہے۔