پشاور کہانی: پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں!۔۔۔

خیبرپختونخوا حکومت نے ’ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز (پی ایم ایس)‘ یعنی مقابلے کا ایک امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کرنے والی محترمہ امارہ خان کو ’پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا سربراہ مقرر کیا ہے۔ 34ویں کامن ٹریننگ پروگرام سے تعلق رکھنے والی محترمہ امارہ ’گریڈ 19‘ کی سرکاری ملازمہ ہیں‘ جنہیں پی ڈی اے کی تاریخ میں پہلی خاتون ڈائریکٹر جنرل تعینات ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ ایک ایسا شہر جس کی آبادی ایک کروڑ کو چھو رہی ہو اور جہاں شہر کا کوئی ایک بھی حصہ مثالی شکل و صورت میں دکھائی نہ دے اور وہاں تعمیروترقی کو معیاری و پائیدار اور حسب حال و ضرورت بنانے کے تجربات میں بار بار ناکامی کے بعد قرعہ فال اگر کسی خاتون کے نام نکلا ہے تو اِس فیصلے کے پیچھے بہت ساری سوچ بچار کا عمل دخل ہوگا ۔ 1975ءمیں قائم ہونے والے اِس ادارے کی قانونی تاریخ اپنی جگہ خاصی پیچیدہ و دلچسپ ہے‘ جسے ایک قانون دان ہی بہتر سمجھ سکتا ہے اور محترمہ امارہ کی اعلیٰ تعلیم قانون ہی سے متعلق ہے‘ جن کے لئے یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ”اَربن پلاننگ اِیکٹ 1975ئ“ کے تحت سال 1975ءکے دوران ’پشاور میٹرو پولیٹین اتھارٹی‘ بنائی گئی تھی جسے 1978ءمیں ’پی ایم اے‘ اور بعدازاں ’پی ڈی اے‘ بنایا گیا۔ سال 2001ءمیں صوبائی حکومت نے ’لوکل ایریا اتھارٹیز‘ کو تحلیل کر کے ’سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ‘ بنائی جو ’لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ئ‘ کی تعمیل تھی۔ مئی 2002ءمیں 1978ءکے قانون کی جگہ ایک نیا قانون متعارف ہوا جس کے بعد پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو صوبائی محکمہ¿ بلدیات کا ذیلی ادارہ بنا دیا گیا۔ سال 2013ءمیں تمام لوکل ایریا اتھارٹیز جو کہ 121ویں شق کے جز 2 کے تحت پھر سے بنائی گئی تھیں کو زیادہ انتظامی و مالی اختیارات دیئے گئے۔ القصہ مختصر اِس آئینی تاریخ کا اختتام 2017ءمیں 21 صفحات پر مشتمل ’پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ‘ کے ساتھ ہوا‘ جس کے 9 ابواب اور 51 شقیں ہیں اور ایک خاتون نگران مقرر ہونے کے بعد اُمید ہے کہ ’پی ڈی اے‘ کے بنیادی مقصد کی تعمیل و تکمیل ہوگی۔ محترمہ امارہ کے لئے چیلنجز منتظر ہیں۔ معلوم نہیں وہ اپنا نام امارہ لکھتی ہیں یا عمارہ لیکن جب وہ ایبٹ آباد میں تعینات تھیں اور اُن کی کارکردگی سے متعلق سوشل میڈیا اور کچھ ذرائع ابلاغ خبریں شائع کرتے تھے تو وہ امارہ کو عمارہ لکھ دیا کرتے جو عمومی غلطی ہے ‘درست لفظ ’امارہ‘ ہے محترمہ امارہ عامر خٹک کی تعیناتی کا اعلامیہ پشاور سے صوبائی حکومت کے نگران دفتر (اسٹیبلشمنٹ ڈیپارٹمنٹ) نے چوبیس فروری کے روز جاری کیا لیکن اُس کا زیادہ چرچا دیکھنے یا سننے میں نہیں آیا لیکن آپ کے تعارف میں ایبٹ آباد کی پہلی خاتون ڈپٹی کمشنر اور ہزارہ ڈویژن کی ایڈیشنل کمشنر ہونے جیسے اعزازات لکھے ہیں۔ محترمہ امارہ کی اعلیٰ تعلیم شعبہ¿ قانون (بیچلرز آف لا‘ ایل ایل بی اور ماسٹرز آف لائ‘ ایل ایل ایم) سے متعلق ہے اور آپ معروف تعلیمی وظیفہ ’فل برائٹ سکالرشپ‘ یافتہ ہیں جو امریکی سینیٹر ولیم فل برائٹ کے نام سے منسوب اور 1946ءمیں قائم کیا گیا تھا اور اُنہی کے نام سے تعلیم کے مختلف شعبوں میں تعلیمی وظائف درخواست گزاروں کی ذہانت اور قابلیت و اہلیت کو جانچ کر دیئے جاتے ہیں جبکہ مستحق طلبہ کا حتمی انتخاب کرنے میں امریکی سفارتخانے کی جانب سے خفیہ تحقیقات پر مبنی رائے بھی شامل ہوتی ہے۔ اِس تعلیمی وظیفے کے دوران درس و تدریسی سرگرمیوں کے جملہ اخراجات کے علاوہ قیام و طعام‘ علاج معالجہ اور حادثاتی بیمہ کی رقم امریکی حکومت ادا کرتی ہے۔ پشاور کی تعمیر و ترقی میں امریکی حکومت کی دلچسپی اُس امداد سے عیاں ہے جو پینے کے پانی کی فراہمی اور صفائی سے متعلق صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے ”واسا“ کی فنی تکنیکی و مالی معاونت کر رہی ہے۔ ایبٹ آباد میں بطور ڈپٹی کمشنر تعیناتی کے دوران محترمہ امارہ نے دیگر سرگرمیوں کے ساتھ تجاوزات کے خلاف مہم کی سربراہی کی ۔فیصلہ سازوں کی دانش و بصیرت کو سلام ہے‘ جنہوں نے پشاور کی تعمیروترقی کے لئے کسی موزوں کردار کا انتخاب کیا ۔ کیا محترمہ امارہ ایبٹ آباد کے محاذ پر کامیاب ہوئی تھیں؟ کیا محترمہ امارہ پشاور کے محاذ پر کامیاب ہوں گی؟ اگر پشاور کی سنیں اور 1975ءسے پشاور کی تعمیروترقی کے دعوو¿ں میں زمینی حقیقت دیکھیں تو ”میرا تجربہ ہے کہ اِس زندگی میں .... پریشانیاں ہی پریشانیاں ہیں (حفیظ جالندھری)۔“