دنیا کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں،اور خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستان بھی بدل رہا ہے، سال 2019میں جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا تو پاکستان کی جانب سے فطری طور پر اس کا بہت سخت اور واضح ردِ عمل سامنے آیا، اسِ دوران چین کے علاوہ جن دو ممالک نے پاکستان کا ساتھ دیا وہ ترکی اور ملائشیا تھے، دونوں ممالک نے نہ صرف پاکستانی موقف کی تائید کی بلکہ مودی حکومت کے اس گھناﺅنے فعل کی ہر سطح پر بھر پور مذمت بھی کی۔ دوسری طرف جب پاکستان نے بھارت کے خلاف دُنیا بھر میں لابنگ کرنے کا وقتی سلسلہ شروع کیا تو پاکستان کو بڑی زیادہ اُمید تھی کہ پاکستان کے دیرینہ عرب دوست ممالک بالخصوص سعودی عرب پاکستان کا ساتھ دیں گے، لیکن حقائق اس کے برعکس سامنے آئے، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ پاکستان کے وزیر خارجہ کو اس بابت بیان دینا پڑا جس سے واضح ہوا کہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے سعودی عرب کے رویے سے نا خوش تھا!پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے بیان کے بعد جہاں بین الاقومی میڈیا میں بھی پاکستان اور سعودی عرب کے بگڑتے تعلقات کی باز گشت سنائی دینے لگی تو وہاں پاکستانی میڈیا میں اس کا چرچہ کچھ الگ انداز میں کیا جانے لگا تھا، پاکستان کے کئی نامی گرامی تجزیہ کاروں نے پاکستان اور پاکستان حکومت کو برا بھلا کہا‘یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت سفارتکاری کو نہیں سمجھتی ورنہ پاکستان کیوں کر تُرکی اور ملائیشیا جیسے ممالک سے اپنی قربتیں بڑھاتے ہوئے سعودی عرب جیسے دوست ملک کو گنوادیتا؟ یہ بھی کہا گیا کہ کیونکہ پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے پہلے سعودی عرب کو نواز شریف اور آصف زردادری کا سب سے بڑا حمایتی ملک مانتے ہوئے اس کا برملا اظہار بھی کرتے رہے ہیں لہٰذا عمران خان پہلے سے ہی سعودی عرب کے لیے دل میں پرخاش رکھتے تھے۔یہ اور اس طرح کے بے شمار تجزیوں پر جلتی پر تیل ڈالنے کا کام اُس وقت ہوا جب سعودی عرب نے پاکستان سے اپنے قرض کے پیسے وقت سے پہلے ہی واپس مانگ لیے۔اس دوران اچھی بات یہ ہوئی کہ پاکستان نے سعودی عرب کو لیے گئے قرض کا بڑا حصہ واپس بھی کردیا تھا۔سعودی عرب کا اس دوران رویہ نہایت ہی افسوسناک رہا لیکن اِس رویے نے پاکستان کو بہت بڑا سبق دیا، اور شاید پہلی مرتبہ پاکستان کو احساس ہوا کہ دُنیا کے ساتھ برابری کے تعلقات ہونے چاہئیں نہ کہ کسی ملک سے قرض لے کر اُس ملک کی ڈکٹیشن پر اپنا ملک چلایا جائے، یہی وہ نقطہ تھا کہ جس پر عمل کر کے پاکستان نے اپنی خود مختاری اور آزاد خارجہ پالیسی کو دُنیا پر واضح کردینا تھا۔فروری 2019میں محمد بن سلمان نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، اس اعلان کے مطابق سعودی عرب نے سی پیک میں شامل ہوکر گوادر میں آئیل ریفائنری میں 15سے 20ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنا تھی، محمد بن سلمان کی سرمایہ کاری کے معاہدے سے پاکستان بہت خوش تھا لیکن اگلے ہی روز سعودی عرب نے بھارت میں بھارت کے ساتھ 100ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کا معاہدہ بھی کر لیا جس کے سامنے پاکستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کا معاہدہ آٹے میں نمک کے برابر تھا۔بین الاقوامی خبروں کے مطابق امریکہ کی ٹرمپ حکومت نے سعودی عرب کی پاکستان میں سرمایہ کاری پر چین کی وجہ سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب کو ایسا کرنے سے منع کردیا تھا، اور یوں پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری واضح طور پر سوالیہ نشانہ بن گئی تھی کیونکہ محمد بن سلمان ڈونلڈ ٹرمپ کے کافی قریب تھے اس لیے یہ بات طے تھی کہ سعودی عرب کبھی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری شروع نہیں کرے گا جب تک سابق امریکی صدر کی اجازت نہیں ہوگی۔ ہر گزرتے لمحے پاکستان اور سعودی عرب میں دوریاں بڑھتی جا رہی تھیں لیکن حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ سعودی عرب کو خود سے ہی پاکستان واپس پاکستان کے قریب آنا پڑا۔ امریکہ سابق صدر ٹرمپ کی شکست کے بعد سے سعودی عرب کے لیے حالات ناساز گار ہونا شروع ہوچکے ہیں، امریکی صدر جو بائیڈن نے اقتدار میں آتے ہی سعودی عرب اور یمن کے تنازعے پر سعودی عرب کی مخالفت شروع کردی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سعودی عرب کے ساتھ اسلحہ کی فروخت بھی روک دی ہے۔ مذکورہ تناظر میں دیکھا جائے تو سعودی عرب کا پاکستان کی طرف واپسی اور بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کے لیے کتنا ضروری ملک ہے، خوش آئند امر یہ ہے کہ سعودی عرب کی پاکستان کی طرف اب کے بار کی واپسی نئے طور طریقے سے ہوگی جس کی شرائط و ضوابط اِس بار پاکستان ایک خودمختار ریاست کے طور پر خود طے کرے گا ۔