بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کنفیوژن۔۔۔

خیبر پختونخواکابینہ نے لوکل گورنمنٹ رولز میں ترمیم، سرکاری زمینوں کی لیز کی مدت بڑھانے، پی ایم ایس سمیت سرکاری ملازمتوں میںبھرتی کے لئے عمر کی حد میں دو سال کی چھوٹ، نجی ٹیسٹنگ ایجنسیوں کا کردار سکریننگ تک محدود کرنے ، انسانی اعضاءکی غیر قانونی پیوند کاری پر سزاﺅں میں اضافہ اور گداگری کی روک تھام کے لئے کمیٹی کے قیام سمیت متعدد اہم فیصلوں کی منظوری دی ہے۔ کورونا کی عالمی وباءکے باعث بھرتیوں پر پابندی کی وجہ سے ہزاروں افراد اوور ایج ہوچکے تھے۔انہیں زیادہ سے زیادہ عمر کی حد میں دو سال کی مہلت دینے سے بہت سے لوگوں کا بھلا ہوگا۔ صوبائی حکومت نے صوبہ بھر میں بلدیاتی اداروںاور کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات رواں سال مئی اور جون میں کرانے کے ساتھ فیسوں کی شرح میں ردوبدل کافیصلہ کیا ہے ‘الیکشن ترمیمی رولز 2020ءکے تحت میئر کے عہدے کے لئے انتخاب لڑنے کی فیس بیس ہزار سے بڑھا کر پچاس ہزار کردی گئی،جبکہ ویلج کونسل کے انتخابی اخراجات کی حد تین لاکھ سے کم کرکے پچاس ہزار کردی گئی ہے۔ مجوزہ بلدیاتی نظام میں ضلع کونسل کو ختم کرکے بلدیاتی نظام کو دو درجاتی رکھا گیا ہے جس میں تحصیل و ٹاﺅن کونسل ، نیبر ہڈ اور ویلج کونسل شامل ہیں ۔صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کنفیوژن پائی جاتی ہے۔ ضلع کونسل جیسے اہم ادارے کو ختم کرنے کے حوالے سے صوبائی حکومت نے کوئی وضاحت نہیں کی۔چند ہفتے قبل بلدیاتی انتخابات رواں سال ستمبر میں کرانے کا اعلان ہوا تھا۔ اب مئی جون میں انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ صوبے کے اکثر مقامات پر بلدیاتی انتخابات کے لئے حلقہ بندیوں کا کام ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔ تین مہینوں کے اندر حلقہ بندیاں مکمل کرکے انتخابات کا انعقاد عملاً ممکن نظر نہیں آتے۔اس حوالے سے حکومت کو وضاحت کرنی ہوگی جہاں تک میئر کے انتخاب کا تعلق ہے۔ اس بارے میں پہلی بار نیا آئیڈیا سامنے آیا ہے۔ قبل ازیں ضلع کونسل، تحصیل و ٹاﺅن کونسل، نیبرہڈ اور ویلج کونسل کا سربراہ ناظم ہوتا تھا۔ ضلع کونسل کے ناظم کو ناظم اعلیٰ کہاجاتا تھا۔ بلدیاتی نظام میں ترمیم کے بعد کیا تحصیل،ٹاﺅن، نیبرہڈ اور ویلج کونسل کا سربراہ بھی میئر ہی کہلائے گا یا صرف تحصیل اور ٹاﺅن کونسل کے سربراہ کو میئر مانا جائے گا؟بلدیات کی عمومی نشستوں کے لئے فیس کی شرح میں کمی اس لحاظ سے خوش آئند ہے کہ اخراجات کی حد تین لاکھ سے کم کرکے پچاس ہزار رکھنے سے خدمت کے جذبے سے سرشار مگر مالی استطاعت نہ رکھنے والے لوگ بھی انتخابی عمل میں حصہ لے سکیں گے جس سے بلدیاتی اداروں کی کارکردگی میں بہتری آنے کی توقع ہے۔ بلدیاتی اداروں کی غیر موجودگی میں نچلی سطح پر عوامی فلاح و بہبود کے منصوبے معطل ہوکررہ گئے ہیں۔ اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کے پاس بلدیاتی ذمہ داریوںکی ادائیگی کی فرصت ہے نہ ہی ان کے پاس اختیارات اور وسائل ہیں۔ گلیوں کی پختگی،نالیوں کی تعمیر،صحت و صفائی، کوڑا کرکٹ کوٹھکانے لگانے، اشیائے خوردونوش کے معیار، مقدار اورنرخوں کا جائزہ لینے، ملاوٹ ، ذخیرہ اندوزی اور گرانفروشی کی روک تھام سمیت عوامی فلاح و بہبود کے تمام کام بلدیاتی ادارے ہی انجام دیتے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کو جمہوریت کی نرسری کہاجاتا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے جمہوریت کی ان نرسریوں کو پھلنے پھولنے کا زیادہ موقع نہیں ملا اور اس سے بھی افسوسناک امر یہ ہے کہ منتخب حکومتیں بلدیاتی اداروں کے قیام سے اکثر گریزاں رہی ہیں۔ شاید صوبائی حکومتیں اپنے اختیارات اور وسائل نچلی سطح پر منتقل کرنانہیں چاہتیں۔خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے الیکشن کمیشن کی ہدایات کی رو سے بلدیاتی اداروں کی بحالی اور ان میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شرکت یقینی بنانے کے لئے اقدامات خوش آئند ہیں توقع ہے کہ صوبائی حکومت اپنے اس عہد پر قائم رہے گی۔