خاموشی کا راز


درس و تدریس کے اَدنیٰ اور اعلیٰ اور عمومی و خصوصی بندوبست سے متعلق ’تعجب کا اِظہار‘ کرنے والوں کی صف میں عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) بھی آ کھڑی ہوئی ہے جس نے ’نجی میڈیکل کالجز‘ کی جانب سے داخلہ عطیات کی وصولی اور مبینہ طور پر مقررہ شرح فیسوں سے زیادہ مالی وصولیاں سے متعلق شکایات پر ’اِیڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا‘ کو طلب کیا ہے تاکہ ”داخلہ عطیات“ جیسے ایک معمول (بے قاعدگی) کی روک تھام اور حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ 26 فروری کے روز 2 رکنی بینچ کے اراکین چیف جسٹس قیصر رشید خان اور جسٹس نعیم انور نے آئندہ سماعت کیلئے ’3 مارچ‘ کی تاریخ مقرر کی ہے لیکن چونکہ معاملہ انتہائی گھمبیر اور کثیرالجہتی ہے اِس لئے اُمید نہیں کہ عدالت فوری کسی نتیجے پر پہنچ پائے گی اگرچہ الزام نہایت ہی سیدھا سادا اور ثبوت ناقابل تردید ہیں‘عدالت ِعالیہ کے روبرو پیش ہونے والا ’داخلہ عطیات‘ کا معاملہ صرف اِسی ایک پہلو سے لائق توجہ نہیں کہ تعلیم کو ”جنس“ سمجھتے ہوئے اِس کی ”خریدوفروخت“ معمول بن چکی ہے بلکہ ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے حکومت سے تحریراً عہد کر رکھا ہے کہ وہ ’فروغ ِتعلیم‘ کے نام پر یہ ’غیرمنافع بخش فلاحی ادارے‘ قائم کریں گے اور چند ایسے بھی ہیں جنہیں اِس نیک ارادے اور کام کے لئے سرکاری اراضی اور مالی امداد بھی دی گئی۔ اِسی طرح کئی میڈیکل کالجز کو سرکاری ہسپتال کے وسائل سے استفادہ کرنے کی اجازت دینے کا بنیادی مقصد بھی یہی تھا کہ حکومت اور نجی شعبے کی شراکت سے اَعلیٰ تعلیم کے فروغ جیسے ہدف کا حصول ممکن ہو سکے لیکن برسرزمین صورتحال یہ ہے کہ فلاح و بہبود کے نام پر قائم ہونے والے تعلیمی ادارے (نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز) اربوں روپے سالانہ کما رہے ہیں لیکن اُن کے مالی حسابات (آڈٹ) میں (جعل سازی سے) نفع کی بجائے ہر سال خسارے (مالی نقصان) کو ظاہر کیا جاتا ہے اور یہ اِدارے ایک طرف عوام تو دوسری طرح ٹیکس ادا نہ کرتے ہوئے حکومت کو چکما دے رہے ہیں کیونکہ یہ حسب آمدن ٹیکس ادا نہیں کرتے اور حسب آمدن تدریسی و غیرتدریسی ملازمین کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے۔ اِس لئے عدالت عالیہ کو نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز کے معاملے کو صرف ایک زاویئے سے نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ ہر ایک نجی میڈیکل اور ڈینٹل کالج کی کہانی‘ کاروباری حکمت عملی اور طرزِعمل (طریقہئ واردات) الگ الگ ہے۔ ”پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیویشنز (pami.org.pk)“ نامی تنظیم کے رکن اداروں (میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز) کی کل تعداد 107 ہے۔ طب کی تعلیم کے وفاقی نگران اِدارے ’میڈیکل کمیشن (pmc.gov.pk)‘ کے مطابق پاکستان میں سرکاری میڈیکل کالجز کی کل تعداد 45 اور سرکاری ڈینٹل کالجز کی کل تعداد 17 ہے۔ اِسی طرح نجی میڈیکل کالجز کی کل 72 جبکہ نجی ڈینٹل کالجز کی کل تعداد 42 ہے لیکن چونکہ ’داخلہ عطیات‘ کا معاملہ (مقدمہ) پشاور ہائی کورٹ کے سامنے پیش (زیرسماعت) ہے اِس لئے خیبرپختونخوا کے کل 10 نجی میڈیکل اور 6 نجی ڈینٹل کالجز کے کاروباری امور (درسی و تدریسی اور کاروباری حکمت عملیاں) ہی زیرغور آئیں گی عدالت عالیہ جو بھی فیصلہ کرے اُسے تحریر کرتے ہوئے الفاظ کے انتخاب اور بار بار وضاحت جیسی ضرورت کو دھیان میں رکھے کیونکہ کسی ایک بات کے کئی مطالب اخذ کر لئے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر مارچ 2018ء میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے لاہور رجسٹری میں مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے نجی میڈیکل و ڈینٹل کالجز کی شرح فیسوں میں پائی جانے والی بے قاعدگیوں سے متعلق ازخود نوٹس لیتے ہوئے ایک فیصلہ جاری کیا جس میں نہ صرف نجی اداروں کو وصول کردہ اضافی فیسیں واپس کرنے کا کہا گیا بلکہ زیادہ سے زیادہ سالانہ شرح فیس ’8 لاکھ 50 ہزار روپے‘ مقرر کی گئی لیکن یہ شرح فیس بعدازاں نہ صرف دس لاکھ روپے سالانہ سے زائد مقرر کی گئی بلکہ اِس میں دیگر ضمنی اخراجات بھی شامل کر دیئے گئے اور اب بات سالانہ 15 لاکھ روپے تک جا پہنچی ہے‘ جو سپریم کورٹ کی محنت‘ توجہ اور فیصلے کی کھلم کھلا خلاف ورزی (توہین) ہے۔ پشاور ہائی کورٹ کو طب کی تعلیم سے متعلق تمام عدالتی ہدایات چاہے اُن کا تعلق خیبرپختونخوا سے ہے یا نہیں پر عمل درآمد کا بھی جائزہ لینا چاہئے تاکہ ایک ”جامع فیصلہ“ سامنے آئے۔ اِس سلسلے میں اِنفارمیشن ٹیکنالوجی کے وسائل کا اِستعمال قواعد و ضوابط اور عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے فاضل جج صاحبان کو یہ بات بھی سمجھنا ہوگی کہ حکومت کی مقرر کردہ سالانہ شرح فیس کا اِحترام نہ کرنے والوں کی صف میں نجی میڈیکل اِینڈ ڈینٹل کالجز ہی نہیں بلکہ اَدنیٰ سے اَعلیٰ تعلیمی درجات میں جہاں کہیں نجی تعلیمی اِداروں کو ’خدمت ِخلق‘ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے وہاں وہاں بتدریج (تہہ در تہہ) بے قاعدگیاں موجود ہیں کیونکہ سرکاری نگران ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے۔