سینٹ انتخابات (3 مارچ) میں حصہ لینے والی جمہوری و پارلیمانی سیاسی جماعتیں ہر حربہ آزمانے کو نہ صرف جائز سمجھتی ہیں بلکہ عددی اکثریت سے زیادہ نشستیں حاصل کر کے ”سپرائز“ دینے کے دعوے بھی کر رہی ہیں۔ ”سرپرائز“ اچانک رونما ہونے والی اُس خاص حرکت کو کہا جاتا ہے جس میں مخالف فریق کو اُس کے وہم و گمان کی ناکامی سے بھی شکست دی جائے جبکہ سیاست میں طاقت سے زیادہ اپنی کمزوریوں پر نظر رکھی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف نے سینٹ انتخابات میں حسب سابق خفیہ رائے شماری کی مخالفت پر مبنی مو¿قف اپنا رکھا ہے جبکہ ماضی میں وہ بھی اِسی خفیہ رائے شماری سے فائدہ اُٹھاتی رہی ہے۔ آج (یکم مارچ) سپریم کورٹ سینٹ انتخابات میں خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹ کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر محفوظ شدہ فیصلہ سنائے گی‘ جس سے صورتحال واضح ہو جائے گی کہ آئندہ دو روز میں کیا ہونے جا رہا ہے۔ یہ معاملہ خاصا سنجیدہ نوعیت کا ہے جس کےلئے عدالت عظمیٰ نے اٹارنی جنرل‘ الیکشن کمیشن‘ چاروں صوبوں اور اسلام آباد کے ایڈوکیٹ جنرلز‘ سینٹ چیئرمین و دیگر کو طلب کیا۔ ذہن نشین رہے کہ پچیس فروری کو چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں پانچ رکنی لاجر بینچ نے سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ سے کرانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کی تھی جبکہ مذکورہ صدارتی ریفرنس وفاقی حکومت نے 23دسمبر2020ءکو صدر مملکت کی منظوری کے بعد سپریم کورٹ میں بطور ریفرنس دائر کیا تھا۔ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آئین کے آرٹیکل 186کے تحت سپریم کورٹ ریفرنس بھجوانے کے بارے میں وزیرِ اعظم عمران خان کی تجویز کو منظور کیا تھا اور ریفرنس پر دستخط کئے تھے جس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ سینٹ انتخابات خفیہ رائے شماری کی بجائے اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ اپنی رائے دے۔ مو¿قف اپنایا گیا کہ آئینی ترمیم کے بغیر الیکشن ایکٹ میں ترمیم کرنے کےلئے عدالت رائے دے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ریفرنس میں دلیل یہ دی گئی کہ خفیہ طرزِ انتخاب سے انتخاب کے عمل کی شفافیت متاثر ہوتی ہے اس لئے سینٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے منعقد کرانے کا کوئی آئینی و قانونی راستہ نکالا جائے‘ حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کی کوشش بھی کی گئی اور قومی اسمبلی میں اس حوالے سے ایک مسودہ¿ قانون پیش کیا گیا لیکن شدید شور شرابے میں حزب اختلاف نے اس مسودہ¿ قانون کی مخالفت کی‘ جس کے بعد مجبوراً حکومت نے آرڈیننس جاری کیا اور صدر مملکت نے چھ فروری کو سینٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کے لئے آرڈیننس پر دستخط کرتے ہوئے آرڈیننس جاری کردیا جسے ”الیکشن ترمیمی آرڈیننس 2021ئ“ کا نام دیا گیا ہے جبکہ آرڈیننس سے متعلق معاملہ سپریم کورٹ میں زیرغور تھا اِسلئے اِس صدارتی ریفرنس کو عدالت عظمیٰ کی رائے سے مشروط کردیا گیا تھا۔ آرڈیننس کے مطابق اوپن ووٹنگ کی صورت میں سیاسی جماعت کا سربراہ یا نمائندہ ووٹ دیکھنے کی درخواست کرسکے گا اور واضح کیا گیا ہے کہ عدالت ِعظمیٰ سے سینٹ انتخابات آئین کی شق 226 کے مطابق رائے ہوئی تو خفیہ ووٹنگ ہوگی۔ علاوہ ازیں آرڈیننس کے مطابق عدالت ِعظمیٰ نے سینٹ انتخابات کو الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دیا تو ”اوپن بیلٹ‘ ‘ہوگی اور اس طرز انتخابات کا اطلاق ملک بھر پر ہوگا۔سینٹ انتخابات حزب اختلاف کی سیاست کا محور ہیں‘ جن کے اتحاد ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ “ نے اگرچہ چھبیس مارچ سے حکومت مخالف ”لانگ مارچ“ شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن وہ لانگ مارچ سے زیادہ سینٹ انتخابات کے محاذ پر حکومت کو شکست دینے کےلئے اپنے وسائل توانائیاں اور وقت مختص کئے ہوئے ہیں ۔ پی ڈی ایم جماعتیں دارالحکومت پہنچنے کے بعد دھرنا دینے پر متفق ہیں لیکن دھرنے کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ دھرنا کتنی مدت تک جاری رکھا جائے گا؟ اِس جیسے بہت سارے سوالات پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی رائے تقسیم ہے کیونکہ کم سے کم 2 بڑی جماعتیں لانگ مارچ کو ”غیر معینہ مدت کے دھرنے‘ ‘میں تبدیل کرنے پر رضامند نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چھبیس مارچ (لانگ مارچ) کی تاریخ میں تبدیلی بھی ہو سکتی ہے ۔