پشاور کہانی: ثقافتی جھانسہ 

 پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑے اثاثوں (تعمیرات) کی نمائش اور سیاحتی کشش میں اضافے کے لئے ’ثقافتی ورثہ راہداری (Cultural Heritage Trail)‘ نامی منصوبے پر تعمیری کام کا آغاز دسمبر 2017ء میں ہوا‘ جس کیلئے پشاور شہر کے وسطی علاقے گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر تک ’400 میٹر‘ راہداری کا انتخاب کیا گیا جو خیبرپختونخوا میں اپنی طرز کا پہلا و منفرد ہونے کے علاوہ اِس لحاظ سے ایک ’مشکل منصوبہ‘ تھا کہ اِس کے چاروں اَطراف مصروف ترین تجارتی اور گنجان آباد رہائشی علاقے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ نصف کلومیٹر سے بھی کم اِس راہداری کی ابتدائی لاگت کا تخمینہ 30 کروڑ (300 ملین) لگایا گیا اور منصوبے کی تکمیل کیلئے چار ماہ کا وقت مقرر کیا گیا لیکن چونکہ یہ منصوبہ آبادی کے مرکز میں ہونے کے علاوہ ایک ایسے مقام پر تھا جہاں کشادگی بہت کم تھی۔ ملبہ اُٹھانے اور تعمیراتی سازوسامان کی نقل و حرکت کھٹن تھی اور تعمیراتی سازوسامان کام کی جگہ پر رکھنا بھی ممکن نہیں تھا اِس لئے منصوبے کو چار ماہ کی بجائے دو ماہ میں ”جیسے تیسے (عجلت میں)“ مکمل کرنے کی وجوہات میں متعلقہ تاجروں کا دباؤ اور کم کشادہ جگہ پر تعمیراتی کام کی مشکلات تھیں‘ جس کی وجہ سے لاگت بڑھنے کا اندیشہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ مذکورہ منصوبے کی ظاہری خوبصورتی پر زیادہ اور پائیداری پر نسبتاً کم توجہ دی گئی جو سرکاری تعمیراتی منصوبوں کا المیہ رہتا ہے لیکن مذکورہ ثقافتی راہداری کے تعمیراتی کام کے معیار کا موازانہ اگر دیگر سرکاری منصوبوں سے کیا جائے تو یہ ہزاروں گنا بہتر دکھائی دے گا ثقافتی راہداری کا آغاز اگر گورگٹھڑی سے بیان کیا جائے تو اِس سے متصل محلہ جات میں ’آغا شریف حسین شاکر‘ مغلاں‘ باقرشاہ اور سیٹھیان جبکہ بازاروں میں شاہین بازار‘ مسلم مینا بازار‘ گھنٹہ گھر اور کریم پورہ بازار کا کچھ حصہ شامل تھا جہاں کی بجلی‘ پانی اور نکاسیئ آب کے منصوبوں کی اصلاح کے ساتھ شاہی کٹھہ کے حصوں کی صفائی و مرمت کے ساتھ ایک نیا نظام وضع کرنا تھا تاکہ ثقافتی راہداری (بشمول ملحقہ محلّہ جات اور بازاروں) سے نکاسیئ آب کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہو جائے۔ اِس سلسلے میں بنیادی تصور لاہور کے ’شاہی قلعہ‘ سے لیا گیا تھا جہاں قلعہ سے متصل ایک دیوار کے سامنے سے گزرنے والی راہداری کو اِس طرح بنایا گیا کہ چلتے چلتے لاہور کی تاریخ و ثقافت کے مختلف اَدوار کی جھلکیاں نظر سے گزرتی رہیں۔ پشاور کے فیصلہ سازوں نے لاہور کے اِس تصور کو زیادہ بامعنی و بامقصد بنایا کہ اِس کا تعلق صرف اور صرف تاریخ و ثقافت سے جڑی کسی بے جان راہداری سے نہیں تھا بلکہ اِس میں اہل پشاور کیلئے سہولیات بھی فراہم کی گئیں اور یہی وہ ’خاص نکتہ‘ تھا جس کی وجہ سے نہ صرف دیگر صوبوں کی نظریں ’پشاور کی ورثہ ثقافتی راہداری‘ پر مرکوز ہوئیں بلکہ بیرون ملک سے سیاح بطور خاص اِس ترقی کا دیکھنے کے لئے آنے لگے اور اگر کسی کو یقین نہ آئے تو سوشل میڈیا پر سینکڑوں ہزاروں کی تعداد  میں تصاویر اور ’یو ٹیوب‘ پر درجنوں ایسی ویڈیوز موجود ہیں‘ جن میں غیرملکی سیاحوں نے پشاور آمد اور پشاور سے متعلق تاثرات کا اظہار کرنے کے لئے ثقافتی ورثہ راہداری ہی کو سب سے موزوں مقام سمجھا۔سال 1823ء تک پشاور کو افغانستان سے بیٹھ کر کنٹرول کیا جاتا تھا جبکہ سکھ دور (1823 ء سے 1846ء) کے درمیان جب پنجاب دارالحکومت تھا اور مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1823ء میں جب پشاور فتح کیا تو گورنر ہاؤس کیلئے ’نظر ِانتخاب‘ گورگٹھڑی پر پڑی اور اُسی دور میں شاہی کٹھہ بھی تعمیر ہوا جو گورنر پاولو ایوٹیبل (Paolo Avaitable) کی مہارت اور پشاور سے محبت کی نشانی کے طور پر آج بھی موجود ہے۔پشاور کی ’ثقافتی ورثہ راہداری‘ جھانسہ بن چکا ہے‘ تصور کریں کہ قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کرنے کا بنیادی مقصد سیاحوں کو متوجہ کرنا اور ایک ایسا کثیرالجہتی تجربہ کرنا تھا جس کی روشنی میں پشاور اور صوبے کے دیگر حصوں میں مقامی افراد اور سیاحوں کیلئے سہولیات میں اضافہ ہوتا لیکن افسوس کہ یہ ’پائلٹ پراجیکٹ‘ ناکافی و ناکام ثابت ہوا کیونکہ اِسے حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ مذکورہ راہداری کی تکمیل کے بعد محکمہئ بلدیات کی زیرنگرانی تجاوزات قائم ہوتی چلی گئیں۔ راہداری میں فراہم کردہ سہولیات سٹریٹ لائٹس‘ بیٹھنے کے مقامات‘ لکڑی کے دروازے‘ کھڑکیاں حتیٰ کہ بجلی کی فراہمی اور نکاسیئ آب کی خاطرخواہ دیکھ بھال نہیں کی گئی۔  یونین کونسل گنج اور کریم پورہ کے سنگم پر واقع گورگٹھڑی کی چاردیواری سے ملحقہ ’سیّد ضیا الدین جعفری روڈ‘ پر قیام پاکستان قبل مال مویشیوں اور جانوروں کیلئے پینے کے پانی کا جو بندوبست کیا گیا تھا اُسے پہلے قبضہ اور بعدازاں مسمار کردیا گیا اور یہ سب کچھ دیکھتے دیکھتے‘ دن یہاڑے ہوا ہے۔ جس سے متعلق وزیراعظم کے سٹیزن پورٹل پر متعدد شکایات بھی درج ہیں‘ پشاور کی ہر خوبی اور ہر خوبصورتی دم توڑ رہی ہے! پشاور کیا تھا‘ کیا بن چکا ہے! سوچئے کہ برسرزمین حقائق یہ ہیں کہ یہاں تعمیروترقی کے نمائشی پہلو بھی اَب دیدنی نہیں رہے! ”اَفسوس پشاور کا سفر اور تعارف ……اِک شہر دلفریب سے‘ اِک شہر پُرفریب۔“