قومی مفاد میں جراتمندانہ فیصلہ۔۔۔

وفاقی حکومت نے آئندہ15دنوں کےلئے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں موجودہ سطح پربرقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 6 سے 7 روپے فی لیٹر تک اضافے کی تجویز دی تھی۔ وزیراعظم نے عوام کے وسیع تر مفاد میں یہ تجویز منظور نہیں کی،حکومتی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے باوجود وزیراعظم نے عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے کی اجازت نہیں دی۔ آئل گیس اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی نے یکم مارچ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںردوبدل کے حوالے سے سمری پٹرولیم ڈویژن کو بھجوائی تھی، پٹرولیم مصنوعات کی مجوزہ قیمتوں کا تعین 30 روپے فی لیٹر لیوی کی بنیاد پر کیا گیا تھا۔ سمری میں پٹرول کی فی لیٹرقیمت میں20روپے 7پیسے ، ڈیزل کی قیمت میں19روپے61پیسے فی لیٹراضافے کی تجویز دی گئی تھی ۔فی لیٹرپٹرول پرموجودہ عائدلیوی17روپے97پیسے اور ڈیزل پر18روپے36پیسے ہے۔تیل کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے کے پیش نظر پٹرول پمپ والوں نے تیل کا کافی ذخیرہ جمع کررکھا تھا تاکہ سستے داموں خریدا گیا تیل مہنگا بیچ کر راتوں رات لاکھوں کروڑوں کماسکیں۔مگر وزیراعظم کی ایک ”نا“ نے ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ حکومت کے ناقدین تیل کی قیمتوں میں اضافے سے حکومت کے انکار پر بھی انہیں کریڈٹ دینے کو تیار نہیں، کہتے ہیں کہ حکومت نے سیاسی فائدہ اٹھانے کےلئے یہ عارضی فیصلہ کیا ہے۔ کسی نے سچ کہا ہے کہ اپوزیشن کسی حال میں خوش نہیں رہتی۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت اگر عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 2018کی سطح پر لے آئے تو ہم مانیں گے کہ حکومت کو عوام کی فکر ہے اور انہیں ہرممکن ریلیف دینا چاہتی ہے۔ ناقدین اپنے موقف کے حق میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ پاکستان کو درآمدی تیل 34روپے فی لیٹر ملتا ہے 30روپے لیوی کے نام سے اس پر ٹیکس لگایاگیا ہے یہ رقم تیل فراہم کرنے والے ممالک کو نہیں دی جاتی بلکہ قومی خزانے میں جاتی ہے۔ سیلز ٹیکس، محصولات ، چونگیاں اور ایڈیشنل ٹیکس ملا کر عوام کو 110 روپے لیٹر پٹرول فروخت کیاجاتا ہے گویا ایک لیٹر پر حکومت 76روپے ٹیکس وصول کرتی ہے جو تیل کی اصل قیمت سے 220فیصد زیادہ ہے۔ اس کے باوجود گذشتہ ایک مہینے کے دوران تیل کی قیمتوں میں تین بار اضافہ کیاگیا۔ جب تیل مہنگا ہوتا ہے تو ٹرانسپورٹیشن کے کرائے بڑھتے ہیں جب کرائے بڑھ جاتے ہیں تو اشیائے خوردونوش کھیت سے منڈیوں، منڈیوں سے فیکٹریوں اور فیکٹریوں سے مارکیٹوں تک پہنچانے کے اضافی کرائے بھی بنیادی قیمت کے ساتھ عوام کی جیبوں سے نکالے جاتے ہیں ۔کچھ لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ حکومت نے سینٹ الیکشن میں ممکنہ منفی ردعمل کے پیش نظر تیل کی قیمتیں فی الحال نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دس پندرہ دن بعد اسی سمری کی منظوری دے کر حساب برابر کردے گی۔ اپوزیشن کے اعتراضات اپنی جگہ۔ ان کا تو بنیادی کام ہی حکومت پر تنقید کرنا ہے۔ اور ایسی بے ضرر قسم کی تنقید سے حکومت کی صحت پر کوئی خاص اثر بھی نہیں پڑتا۔ ایک عام شہری ہونے کے ناطے غیر جانبدار لوگوں کو قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کے فیصلے پر حکومت کی جرات کو داد دینی چاہئے۔اگر حوصلہ افزائی ہوگی تب ہی حکومت کی کارکردگی میں بہتری آئے گی اور وہ آئندہ بھی ستائش کی امید پر قیمتوں میں اضافے کی تجاویز اور سفارشات کو رد کرے گی۔ حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا یہی مطلب ہوتا ہے کہ جو بھی فیصلہ کیا جائے اس کا خیرمقدم ہو خواہ وہ فیصلہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ایک ماہ میں تین بار اضافے کا ہی کیوں نہ ہو۔ جو ملک کے مفاد میں ہے اسی میں ہمارا مفاد پوشیدہ ہے۔