پشاور کہانی: نبض شناسی۔۔

خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے پہلے دورِ حکومت کے دوران پشاور کی تاریخ و ثقافت کی حفاظت اور بحالی کے بارے میں سوچ بچار ہی کا نتیجہ تھا کہ ’گورگٹھڑی سے گھنٹہ بازار تک‘ کے علاقے میں پھیلے ”ثقافتی ورثے“ کی بحالی و تحفظ اور سیاحتی نکتہ¿ نظر کو دھیان میں رکھتے ہوئے قریب نصف کلومیٹر طویل ”ثقافتی ورثہ راہداری“ تعمیر کی گئی۔ مقررہ وقت سے قبل لیکن ابتدائی لاگت کے تخمینہ جات سے زائد رقم خرچ کرنے کے بعد جولائی 2018ءکے عام انتخابات سے چند ماہ ’ثقافتی ورثہ راہداری‘ مکمل کر لی گئی اور حسب توقع اندرون شہر کے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں سے تحریک انصاف کو اِس کا انتخابی فائدہ بھی ہوا۔تحریک انصاف کےلئے پشاور شروع دن سے توجہات کا مرکز رہا ہے۔ پہلے دور حکومت کے بعد اگست 2018ءسے جاری دوسرے دورِ میں ’پشاور بحالی منصوبہ کے نام سے زیادہ جامع اور کثیر الجہتی لائحہ¿ عمل کی منظوری دی گئی جس کی تکمیل کےلئے مختلف شعبوں کے ماہرین پر مشتمل کمیٹیاں بنائی گئیں ہیں تاکہ منصوبہ بندی سے عملی اقدامات تک کام کاج کی رفتار کو معیاری‘ پائیدار اور تیز کیا جا سکے لیکن دانستہ یا غیردانستہ طور پر غلطیاں سرزد ہوئی ہیں کہ ماضی میں کی گئی سرمایہ کاری‘ ترقیاتی تجربات اور ان کے نتائج کو فراموش کر دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ صوبائی حکومت کے فیصلہ سازوں نے اپنے ہی مکمل کردہ منصوبوں کی طرف مڑ کر نہیںدیکھا جنہیں مزید مالی وسائل سے زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ دیر آئید درست آئید‘ شنید ہے کہصوبائی حکومت نے غمگساری اور سرپرستی کا فیصلہ کیا ہے۔ قابل ذکر پیشرفت ہے کہ چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا کی جانب سے ارسال کردہ ایک تجویز کو وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے منظور کرتے ہوئے ’ثقافتی ورثہ راہداری‘ پشاور کی ضلعی حکومت کے حوالے کر دی ہے۔ ’ثقافتی ورثہ راہداری‘ کا بنیادی مسئلہ ’تجاوزات‘ ہیں اور ایک حکومت ادارے سے ’ثقافتی ورثہ راہداری‘ کو لیکر دوسرے حکومتی ادارے کو ’ثقافتی ورثہ راہداری‘ سونپ دینا مسئلے کا حل ثابت نہیں ہوگا کیونکہ پشاور شہر سے تجاوزات ختم کرنے میں ’سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ‘ عملاً ناکام ثابت ہوئی ہے۔ تصور کریں ایک ایسے شہر کا‘ جس کا کوئی بازار تجاوزات سے پاک نہیں اور اُسے ایک عدد نئی اور نسبتاً زیادہ اہم ذمہ داری سونپ دی گئی ہے۔پہلی بات: سرکاری اداروں کی کارکردگی سزاوجزا سے مشروط نہیں کہ اگر کسی حکومتی ادارے کے اہلکار ’اچھی کارکردگی‘ کا مظاہرہ کریں تو اُنہیں انعام و اکرام نہ سہی ’شاباشی‘ ہی مل سکے۔ اِسی طرح خدمات کا اعتراف بھی ضروری ہے۔ اہل پشاور کو تعمیروترقی کے عمل اور اِس کی حفاظت کے عمل میں شریک کرنے کےلئے یونین کونسل‘ تحصیل اور ضلعی سطح پر بالترتیب ”سپوت ِپشاور‘ شان ِپشاور اور دل پشاور“ جیسے اعزازات جادو کا کام کر سکتے ہیں بالخصوص اگر نئی نسل کی توجہ بذریعہ ’سوشل میڈیا‘ اِس جانب راغب کی جا سکے۔ ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔“دوسری بات: پشاور کے خاکے میں تصور‘ موضوع اور عمل محدود نہیں بلکہ کثیرالجہتی ہیں اور اِس کے من پسند پہلوو¿ں کو ذاتی و سیاسی مفاد کی عینک لگا کر بھی نہیں دیکھنا چاہئے۔ ’ثقافتی ورثہ راہداری‘ کیا ہے‘ کیوں ہے‘ اس کی کل لمبائی کتنی ہے‘ اِس کی توسیع کیوں نہیں ہوئی‘ اِس کی تکمیل پر کل لاگت کیا رہی‘ لاگت کے ابتدائی تخمینہ جات سے زیادہ خرچ کیوں ہوا‘ اِس کثیرالجہتی تجربے میں شامل ضمنی ترقیاتی منصوبے کیا تھے اور اُن پر عمل درآمد کس قدر ہوا یا کیوں نہیں ہو سکا؟ اِن جیسے لاتعداد سوالات کا جواب صرف اور صرف اِسی بندوبست اور انتظام کے ذریعے ممکن ہیں کہ انفرادی و سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر پشاور کے نگرانوں و ذمہ داروں پر مشتمل ”حکمرانوں“ کا نہیں بلکہ ”خدمت گزاروں“ کا انتخاب کیا جائے۔جولائی 2015ءمیں پشاور شہر کی حدود میں تاریخ و ثقافت سے جڑے اثاثوں کی بحالی حفاظت اور ترقی کے لئے لاہور (پنجاب) کی طرز پر ’والڈ سٹی اتھارٹی (Walled City Authority)‘ قائم کرنے کی تجویز سننے میں آئی تھی جو سردخانے کی نذر ہے۔ ’پشاور ریوائیول پلان‘ میں اگر ’والڈ سٹی اتھارٹی‘ کے قیام کو بھی شامل کر لیا جائے تو اِس سے نہ صرف پشاور کی پائیدار و جاندار تعمیروترقی کا دعویٰ‘ خواب اور وعدہ پورا ہوگا بلکہ متعلقہ حکومتی اِداروں و غیرحکومتی تنظیموں کے آپسی تعاون سے افرادی و مالی وسائل ضائع بھی نہیں ہوں گے اور ترقی‘ بحالی و نگرانی جیسے اہداف کا حصول زیادہ بہتر و فعال انتظام (واضح تعین) کی وجہ سے ممکن ہو گا جس سے ”بکھرے بکھرے پشاور“ کا ایک زیادہ ”نکھرا‘ نکھرا چہرہ“ اُبھر کر سامنے آئے گا۔
اِک تصور ہے کہ‘ تصویر کا ہر رنگ روشن
خواب سا خواب کہ‘ تعبیر کا ہر رنگ روشن
پھول کلیوںکا پشاور بہ شکل ِوہم و گماں
پھر سے اَے کاش ہو‘ تعمیر کا ہر رنگ روشن