افغان امن: درمیانی راستہ۔۔۔

افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں حالیہ پیشرفت امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی سینئر افغان اہلکاروں سے ملاقات ہوئی ہے‘ جس کا مقصد قیام امن کے سلسلے میں رکاوٹیں دور کرنا اور افغان امن کے فریقین کے درمیان بات چیت کی رفتار تیز کرنا ہے قبل ازیں اِسی قسم کی ملاقاتیں قطر میں افغان طالبان سے بھی ہو چکی ہیں جس کے بعد کابل میں ہوئی ملاقاتوں سے دونوں فریقین (افغان حکومت اور طالبان) کے ایک دوسرے سے متعلق تحفظات دور کرنے کی کوششوں نئے مرحلے میں داخل ہوئی ہیں اور پاکستان کے نکتہ¿ نظر سے یہ نہایت ہی اہم پیشرفت ہے‘ جس کی حمایت اور کامیابی کےلئے پاکستان کی کوششوں کی نہ صرف امریکہ بلکہ دیگر عالمی طاقتوں اور عالمی سطح پر کی گئی ہے لیکن اَفغانستان کے محاذ پر بے یقینی کی صورتحال برقرار ہے جس کی بنیادی وجہ دہشت گرد کاروائیاں ہیں بالخصوص ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ ہے جس میں تازہ ترین واقعہ تین خواتین صحافیوں کا قتل ہے‘ جو ٹیلی ویژن سے وابستہ تھیں اگرچہ طالبان نے اِس واردات کی ذمہ داری قبول نہیں کی لیکن افغان محاذ پر مسلسل اُن آوازوں کو خاموش کرایا جا رہا ہے جو اَفغان اَمن میں شریک فریقین کے ماضی اُور اِنسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مبنی واقعات کی یاد دہانی کرواتے ہیں۔افغان قیام امن میں رکاوٹ کا بنیادی نکتہ غیرملکی افواج کے مکمل انخلا سے متعلق طالبان کے مطالبے پر عمل درآمد ہے اُور چونکہ امریکہ کی نئی قیادت ماضی میں ہوئے معاہدے اُور فیصلوں کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دے رہی اُور ’وائٹ ہاو¿س‘ کی جانب سے ایک بیان میں طالبان کے ساتھ معاہدے پر نظرثانی کی بات بھی سامنے آ چکی ہے جس کے بعد سے افغانستان میں رونما ہونے والے پرتشدد واقعات میں اچانک تیزی آئی ہے اُور اِن افسوسناک واقعات میں زیادہ جانی نقصان عام افغانوں کا ہو رہا ہے جن کے لئے قیام امن معاہدے (29فروری 2020ئ) سے قبل اور بعد کی صورتحال یکساں پُرخطر ہے۔امریکہ طالبان معاہدے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ مئی 2021ءتک افغانستان میں موجود امریکی افواج کا انخلا مکمل ہو جائے گا۔ امریکہ کی نئی سیاسی قیادت افغان امن کو الگ زاویئے سے دیکھتی ہے جبکہ طالبان کے لئے یہ ایک مسلسل عمل اُور غیرملکی افواج کی صورت موجودگی و مداخلت ناقابل قبول اَمر ہے۔ اِس صورتحال میں درمیانی راستہ نکالنے اور امریکہ کی جانب سے معاہدے کے شرائط پر عمل درآمد میں ضمنی شقیں شامل کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جس کے لئے خطے کے ممالک بشمول پاکستان سے بھی بات چیت ہو رہی ہے اور حال ہی میں جب پاکستان میں برطانیہ کے سفیر نے پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کی تو اُس میں بھی افغان امن سے متعلق موضوع زیربحث آیا۔ مذکورہ ملاقات کی زیادہ تفصیلات اگرچہ جاری نہیں ہوئیں لیکن عالمی طاقتیں افغانستان کےلئے جس درمیانی راستے (قیام امن کے ممکنہ طریقے) پر عمل درآمد چاہتی ہیں طالبان کےلئے وہ کسی بھی طور قابل قبول نہیں ہوگا۔ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو یہ بات بھی لائق توجہ ہے کہ پاکستان کا کسی ایسی عالمی تجویز (درمیانی راستے) پر اتفاق کرنا بھی اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ افغان امن کا کوئی ایک بھی فریق اگر یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے ساتھ کئے گئے معاہدے اور عالمی سطح پر یقین دہانیوں کا پاس نہیں رکھا جا رہا تو اِس سے افغان قیام امن کے کوششوں کو دھچکا لگے گا۔ امریکہ کی جانب سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ طالبان مکمل جنگ بندی کا اعلان کریں جبکہ طالبان ایسا نہیں کرنا چاہتے اور کئی ایک دہشت گرد کاروائیوں کی بھی اُنہوں نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے لیکن اُنہیں طالبان کے کھاتے میں شمار کیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں نیٹو تنظیم کی جانب سے طالبان سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ مکمل جنگ بندی کریں جبکہ امریکہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ دوحا امن معاہدہ کرتے ہوئے عجلت سے کام لیا گیا اور اِس میں افغان حکومت کو بطور فریق شریک نہ بنانا ایک غلطی تھی جس کسی اصلاح ضروری ہے۔ اگر افغانستان میں قیام امن کی کوششیں اُور ایک سال سے جاری بات چیت کے مراحل کو دیکھا جائے تو معاہدے اُور قیام امن کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد نہیں ہوتی جیسا کہ امریکہ اُور اِس کے اتحادی ممالک ذرائع ابلاغ کی وساطت سے پیغام دے رہے ہیں۔ افغانستان میں امن کے قیام کا موقع طالبان نہیں بلکہ امریکہ اور اِس کے اتحادی ممالک کے ہاتھ میں ہے اور عالمی فریق اگر حسب معاہدہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتا تو اِس کی وجہ سے ’قیام امن‘ کی کوششوں کو پہنچنے والے نقصان کےلئے ذمہ دار کوئی اور نہیں بلکہ یہی عالمی طاقتیں ہوں گی۔