ایف اے ٹی ایف کے معاملہ کاجائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ پاکستان کے حوالہ سے بدنیتی موجود ہے وگرنہ جس مختصرعرصہ میں پاکستان نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط پوری کرکے دکھائی ہیں ان کی تعریف اورا عتراف میں بہت کچھ کیاجاناچاہئے تھا مگر ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام کے عالمی ادارے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے 25فروری کو ختم ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو ایک بار پھر گرے لسٹ میں رکھنے کا فیصلہ کیا ہے اور پاکستان کو اس لسٹ سے نکلنے کیلئے مزید تین نکات پر توجہ دینے کی ہدایت کی ہے۔ اس اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کو تین سفارشات پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اس لیے اسے جون 2021 تک گرے لسٹ میں ہی رکھا جائے۔ جون کے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف اس پر غور کرے گا کہ پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا جائے یا اس سے 'ڈو مور' کا تقاضا کیا جائے یہ طرزعمل یقینا منصفانہ نہیں کہلاسکتا کیونکہ جب نوے فیصد تک سفارشات یا شرائط پر عمل کیاجاچکاہے تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ ایف اے ٹی ایف پاکستان جیسے مشکل حالات کاسامناکرنے والے ملک کی حوصلہ افزائی کےلئے کم ازکم مشروط طورپر وائٹ لسٹ میں شامل کرلیتا اور اس کو ایک مخصوص ٹائم فریم میں باقی تین نکات پر عملدرآمد کاپابند بناتا بہت سے تجزیہ کار بھی یہی سمجھتے رہے کہ پاکستان کو مشروط طورپر وائٹ لسٹ میں شامل کرلیا جائے گا مگر ایسانہ ہوسکا حالانکہ ایف اے ٹی ایف کو یہ سوچناچاہئے تھاکہ پاکستان کو مختصرعرصہ میں اس کی شرائط پوری کرنے کےلئے کن مشکل مراحل سے گذرناپڑاہے پاکستان جیسے ملک کیلئے ایف اے ٹی ایف کے ستائیس نکات کو پورا کرنایقینا ایک انتہائی مشکل امرتھاکیونکہ یہاں کی معیشت مکمل طورپر ڈاکیومنٹڈ ہے ہی نہیں اسے دستاویز ی شکل دینا اورپھر اس کےلئے مقامی کاروباری طبقہ کو تیارکرنا تو مشکل امرتھاہی اس سے بھی بڑھ کرمشکل امر عطیات دینے اورلینے والوں کی تفصیلات دستاویز ی شکل میں لاناہے مگر پھر بھی پاکستان نے نہ صرف اس حوالہ سے قانون سازی کی بلکہ بہت حد عملی پیشرفت بھی کرکے دکھائی اس کے باوجود محض بھارت کی خوشنودی اوراس کے پروپیگنڈے کی وجہ سے پاکستان کو مسلسل گرے لسٹ میں رکھنا متعصبانہ رویہ ہی قرارپائے گا واضح رہے کہ پاکستان کو 2018 میں گرے لسٹ میں ڈالتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کی 40 سفارشات میں سے صرف 13 پر پورا اترتا ہے اور اسے 27 سفارشات پر عملدرآمد کرنے کےلئے ایک سال کا وقت دیا گیا۔ 25 فروری کو ختم ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان کو ابھی تین سفارشات کو مکمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جب سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا ہے، جیساکہ پہلے بتایاگیاہے کہ بھارت نے بڑھ چڑھ کر پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالنے کی کوششیں کی ہیں اور کئی بار تو انڈیا کے سینئر وزرا ایف اے ٹی ایف کے اجلاس سے پہلے پاکستان کے بلیک لسٹ میں جانے کی پیشگوئیاں کرتے رہے ہیں لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہو پایا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے حالیہ اجلاس کی جو اطلاعات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق اس اجلاس میں روایتی حریف بھارت سے بھی بڑھ کر یورپ کے ایک بااثر ملک فرانس نے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکالنے کی مخالفت کی ہے۔ فرانس کی طرف پاکستان کی کھل کر مخالفت کی وجہ کیا ہے، کیا اس کے پیچھے فرانس کے انڈیا کے ساتھ ہونے والے دفاعی آلات کی فراہمی کے معاہدے ہیں یا حالیہ مہینوں میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی دوبارہ نمائش پر پاکستان کی حکومت کا ردعمل ہے اس حوالہ سے تجزیہ کاروں کاکہناہے کہ اگر پاکستان کے حوالے سے فرانس کے رویے کو انڈیا کے ساتھ اس کے دفاعی سازو سامان کی فروخت کے روشنی میں دیکھا جائے تو فرانس کی مخالفت کی وجہ سمجھ آتی ہے انکے مطابق فرانس انڈیا کے ساتھ اپنے تجارتی معاہدوں کو بڑھانے کی غرض سے ایسے کام کر سکتا ہے جس سے اس انڈیا خوش ہو۔ ’ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے حوالے سے ہندوستان اور فرانس ایک ہی صحفے پر ہیں۔‘ انڈیا نے حال میں فرانس سے دفاعی پیدوار کے متعدد معاہدے کیے ہیں اور جن میں جدید جنگی طیارے رفال کا سودا بھی شامل ہے۔ تجزیہ کارکہتے ہیں کہ پاکستان کو اپنی صورتحال کو سمجھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور اس غرض سے اسے یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات پر توجہ دینی چاہئے۔دوسری طرف حکومتی ذرائع کا کہناہے کہ پاکستان کے اب گرے سے بلیک لسٹ میں جانے کے امکانات ختم ہو چکے ہیںوفاقی وزیر حماداظہر کے مطابق ایف اے ٹی ایف نے تسلیم کیا ہے کہ پاکستان 90 فیصد سفارشات پر عمل کر چکا ہے بقیہ تین نکات پر بہت سا کام پہلے ہی ہو چکا ہے اور اسے بہت جلد مکمل کر لیا جائے گا۔حکومتی ذرائع کایہ بھی کہناہے کہ پاکستان کے پاس موقع تھا کہ وہ کووڈ کی عالمی وبا کی وجہ ایف اے ٹی ایف کے اس اجلاس میں رپورٹ جمع نہ کراتا لیکن پاکستان نے ایسا نہیں کیااس کے باوجودجومعاندانہ رویہ اختیار رکھاجارہاہے اس سے تو ان خدشات کو بھی تقویت ملتی ہے کہ شایدکوئی خاص قوتیں پاکستان کو مایوس کروا کر ایف اے ٹی ایف سے عدم تعاون کی راہ پر گامزن کرانے کی خواہشمند ہیں تاکہ پھران کو کھل کرکھیلنے کاموقع مل سکے تاہم اس بار پاکستانی حکومت انتہائی احتیاط سے پتے کھیل رہی ہے اورالٹا سازشیوں کو جھنجھلاہٹ کاشکار کیاجارہاہے اورصرف اسی پالیسی پر کاربندرہتے ہوئے پاکستان جلد ایف اے ٹی ایف کی وائٹ لسٹ میں آسکتاہے۔